اس پر قبر شریف سے دست مبارک باہر نکلا اور انھوں نے اس کو چوما (الحاوي للسيوطي)کہا جاتا ہے کہ اس وقت تقریباً نوے ہزار کا مجمع مسجد نبوی میں تھا جنھوں نے اس واقعہ کو دیکھا اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی زیارت کی، جن میں شیخ عبدالقادر جیلانی کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ (اَلْبُنْيَانُ الْمُشَيَّدُ)
دیکھئے فضائل حج از مولانا زکریا ص131، 130۔
معلوم ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی قدرت حاصل ہے کہ فوت ہونے کے باوجود جب چاہیں ہاتھ باہر نکال کر بوسہ کا شرف عطا فرما دیں۔ معلوم نہیں قرآن میں یہ آیت کیوں اُتری ہے کہ:
(إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ )
پھر لطف یہ کہ دیکھا نوے ہزار نے مگر روایت انہی لفظوں سے ہے کہ کہا جاتا ہے۔ کہنے والے کا پتہ ہی نہیں کون ہے؟اب یہ حکایت پڑھ کر کون مسلمان ہے جو سلام کہتے وقت یہ انتظار نہ رکھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ابھی نکلا اور ابھی بوسہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ حکایت نمبر14و15 میں کانوں کے ساتھ قبر سے وعلیکم السلام آواز سننے کا واقعہ بیان کیا ہے۔ (دیکھئے ص131)
ایک عورت کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد اور اسے ستانے والوں کی موت:
حکایت نمبر16: یوسف بن علی کہتے ہیں کہ ایک ہاشمی عورت مدینہ طیبہ میں رہتی تھی اور بعض خدام اس کو ستایا کرتے تھے۔ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں فریاد لے کر حاضر ہوئی تو روضہ شریفہ سے آواز آئی:
(أمالك في أسوة؟فاصبري كما صبرت-أو نحو هذا)
”کیا تیرے لیے میرے اتباع میں رغبت نہیں جس طرح میں نے صبر کیا تو بھی صبر کر۔ “
|