امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب
صاحب تحریر فرماتے ہیں”یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ چھوڑنے کو اختیار کیاہے۔ ان کی یہ بات بھی محل نظر ہے۔
اولاً: تو اس لیے کہ اس مقام پر مسئلہ زیر ناف یا سینہ پر ہاتھ باندھنا موضوع بحث ہے ہاتھ باندھنا یا چھوڑنا موضوع بحث نہیں اور ہاتھ باندھنے کی کیفیت والی احادیث پر کلام کرلینے سے لازم نہیں آتا کہ ہاتھ چھوڑنا ہی اختیار کرلیاجائے لہٰذا سینے پر زیر ناف ہاتھ باندھنے کی روایات پر کلام کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہاتھ چھوڑنے والی ایک روایت کی وجہ بنانا بے جا، بے ربط اور بے بنیاد ہے چہ جائیکہ اسے بطریق حصر وقصر وجہ قراردے دیا جائے جیسا کہ لفظ”یہی وجہ“سے واضح ہورہا ہے۔
ثانیاً: اس لیے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہاتھ چھوڑنے کو اختیار کرنا ہی مخدوش ہے کیونکہ ہاتھ چھوڑنا صرف ان کی ایک روایت ہے اور دوسری روایت ہاتھ باندھنے کی ہے۔ بہت سے مالکیوں اور غیر مالکیوں نے اس دوسری روایت کو ترجیح دی ہے پھر اس دوسری روایت کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز اور شہرہ آفاق کتاب مؤطا میں ہاتھ باندھنے کا باب عنوان قائم کیا ہے اورنیچے صاحب تحریر کی بیان کردہ ہاتھ باندھنے کی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی باسند روایت کی ہے۔
ثالثاً: اس لیے کہ دعویٰ”یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ“ الخ صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا ذیل اُمور کو ثابت کیاجائے۔
1۔ سینے پر اور زیر ناف ہاتھ باندھنے کی احادیث امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم تھیں۔
2۔ پھر ان احادیث طرفین سے ہر حدیث کا ضعف بھی ان کے علم میں تھا۔
3۔ انہوں نے ہاتھ چھوڑنے کو واقعی اختیار بھی فرمایا ہے۔
4۔ اس ہاتھ چھوڑنے کی وجہ احادیث طرفین کاضعف ہے۔
|