ہوتا ہے کہ یہاں (مجزي من القراءة) سے سورۃ فاتحہ کے بعد ایک آیت مراد نہیں چنانچہ فرماتے ہیں:
(ومن قرأ في العشاء في الأوليين السورةولم يقرأ بفاتحة الكتاب لم يعد في الأخريين) الخ[1]
”یعنی جو شخص عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں کوئی سورۃ پڑھ لے مگر سورۃ فاتحہ نہ پڑھےوہ دوسری دو رکعتوں میں نہ لوٹائے۔ “
یہاں ایک شخص نے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی کوئی دوسری سورۃ پڑھ دی ہے اسے دوسری دو رکعتوں میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھنے سے روکا جا رہا ہے چنانچہ نہ پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھی گئی نہ دوسری دو رکعتوں میں۔
اب آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ(أدنى ما يجزء من القراءة في الصلاة آية) والی عبارت صرف اس قراءت کے بارے میں لکھی ہے جو سورۃ فاتحہ کے بعد ہے؟
مفتی عبدالشکور صاحب کے جواب کی حقیقت:
مفتی عبدالشکور صاحب نے اپنی تحریر کا نصف سے زیادہ حصہ ایک ایسے سوال کے جواب میں صرف فرمایا ہے جو سائل نے کیا ہی نہیں چنانچہ فرماتے ہیں:
”مذکورہ بالا روایت سے مطلقاً فاتحہ خلف الامام پر استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ دعویٰ خاص اور دلیل عام ہے نہ اس میں مقتدی کی قید موجود ہے اور نہ خلف الامام کی اور جب تک دعویٰ اور دلیل میں مطابقت نہ ہو تو دعویٰ قابل [2]مسموع نہیں ہو سکتا۔ “
حالانکہ سائل کا سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس شخص نے
|