کر کے تمسخر اڑایاہے۔ محترم قاضی صاحب! کیا میں نے کہا ہے کہ ایک واسطہ فی العروض ہے ایک واسطہ فی الثبوت ہے ایک واسطہ فی الاثبات ہے اور ایک ان تینوں کا مجموعہ سفیریہ ہے؟ یہ خوب انصاف ہے کہ آپ اپنے پاس سے امکان پیدا کر کے ایک غلط بات گھڑکر میرے ذمے لگائیں اور پھر اس کی پھبتی اڑائیں۔ یہ تضحیک میری کسی بات کی نہیں آپ کی میرے ذمے گھڑ کر لگائی ہوئی بات کی ہے جس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ طریقہ شروع سے ہی چلا آیا ہے ؎
هُم يَشتُمُونَ مُذَمَّماً، وَمُحَمَّدٌ
عَن شَتمِهِم فِي مَعزِلٍ وَصِيَانِ
امکان کی اصطلاح:
واسطہ کی اصطلاح پر بات ختم کرتے ہوئے ہم قاضی صاحب کو امکان اور عدم امکان کی بحث کی طرف بھی توجہ دلائیں گے کہ عقلی علوم میں غیر ممکن کا معنی ایسی چیز ہوتا ہے جو محال ہو اور وجود میں آہی نہ سکتی ہو۔
میں نے جب قاضی صاحب کی پہلی تحریر کا جواب لکھ کر ان کی خدمت میں بھیجا تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ”میرا وقت معیار ہے
اس میں تضعیف کا امکان نہیں الخ اس عبارت میں تحریری جواب کے لیے وقت میں گنجائش نکالنا نا ممکن قراردیا گیا ہے۔ تو جب وقت میں گنجائش نکالنا محال تھا تو اب اظہار المرام کیسے وجود میں آگئی۔
اس کا مطلب تو یہ ہے کہ حضرت صاحب محالات پر بھی قادر ہیں اور معیار میں تضعیف پر بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قاضی صاحب نے امکان اور معیار دونوں اصطلاحوں کی آبرو خراب کردی ہے۔
فرقہ سازی:
قاضی صاحب اظہار المرام ص23 پر فرماتے ہیں:”حضرت مولانا عبدالسلام صاحب اپنی کتاب(ایک دین چار مذہب)ص 32 پر لکھتے ہیں: اختلاف اپنی
|