ثلاث آيات قصار أو آية طويلة، لأنه لا يسمى قارئاً بدونه فأشبه قراءة ما دون الآية وَلَهُ قَوْلُه تَعَاليٰ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ غَيْرِ فَصْلٍ اِلَّا اَنَّ مَادُوْنَ الآيَةِ خَارِجٌ وَالْآيَةُ لَيسَتْ بِمَعْنَاهُ)
”یعنی نماز میں کم ازکم جتنی قراءت مجزی ہے(یعنی جس سے نماز ہو جاتی ہے) امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک آیت ہے اور صاحبین نے کہا: تین چھوٹی آیتیں یا ایک لمبی آیت۔ کیونکہ اس کے بغیر اسے قرآن پڑھنے والا نہیں کہا جاتا تو وہ ایک آیت سے کم پڑھنے کے مشابہ ہو جائے گا۔ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان:(فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ) یعنی پڑھو جو میسر ہو قرآن سے“میں(چھوٹی یا بڑی آیت کا) کوئی فرق نہیں کیا گیا مگر ایک آیت سے کم ہو تو وہ خارج ہے اور پوری آیت پڑھنا اس کے معنی میں نہیں۔ “
مفتی صاحب غور فرمائیں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ ایک لمبی یا تین چھوٹی آیتوں سے کم پڑھے تو وہ قرآن پڑھنے والا نہیں کہلاتا تو کیا اگر پوری سورۃ فاتحہ کے بعد صرف آدھی آیت پڑھی جائے، پوری ایک لمبی یا تین چھوٹی آیات نہ پڑھی جائیں تو یہ ساڑھے سات آیات پڑھنے والا بھی قرآن پڑھنے والا نہیں کہلا سکتا اور یہ ساڑھےسات آیات بھی خارج از اسم قرآن ہیں؟
حقیقت یہی ہے کہ صاحب ہدایہ امام صاحب کا قول”صرف ایک آیت“بیان کر رہے ہیں خواہ فاتحہ سے ہو یا کسی دوسری سورۃ سے۔ سائل نے درست سمجھا ہے۔ اور مفتی صاحب حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس قول کی مخالفت دور نہ کرسکنے کی بنا پر مغالطہ دینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ایک اور دلیل:
اس کی ایک اور دلیل پیش خدمت ہے۔ صاحب ہدایہ نے(وأدنى ما يجزء من القراءة في الصلاة آية) سے پہلے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس سے بھی صاف معلوم
|