Maktaba Wahhabi

855 - 896
سجدہ میں جاتے وقت گھٹنے پہلے رکھنے کی روایت کی حقیقت: قاضی حمیداللہ صاحب نے اپنی پہلی تحریر میں فرمایاتھا کہ”سجدہ میں جاتے وقت ہاتھ پہلے زمین پر نہ لگائیں بلکہ گھٹنے لگائیں“ اس موقف کوثابت کرنے کے لیے انہوں نے لکھاتھا:” امام ابوداؤد نے وائل بن حجر کی روایت نقل کی ہے جس میں ہے کہ گھٹنے پہلے لگاؤ“۔ میں نے اس روایت کی تردید دلیل کے ساتھ کردی تھی آپ”ایک دین اورچارمذہب ص 50“ پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں میں نے عرض کیا تھا کہ :اس کی سند میں شریک کوفی ہے جن کا حافظہ قاضی بننے کے بعد خراب ہوگیاتھا۔ دیکھئے تقریب“۔ اب قاضی صاحب کا تازہ فرمان پڑھیے لکھتے ہیں: ”بندہ نے لکھاتھا کہ سجدہ میں جاتے وقت گھٹنوں کو پہلے اور ہاتھوں کو بعد میں زمین پر رکھنے چائیے(کذا) اور دلیل وائل بن حجر کی روایت جس کو ترمذی نے باب وضع الرکبتین قبل الیدین ص 56 ج1 میں نقل فرمائی ہے حضرت مولانا عبدالسلام صاحب اس روایت کی تردید تو نہ کرسکے البتہ اپنی روایت کی توثیق کےلیے پریشان ہوگئے“۔ (اظہار المرام ص19) فرمائیے کیا واقعی میں نے اس روایت کی تردید نہیں کی؟ شریک پر جرح جومیں نے نقل کی تھی وہ آپ کی پیش کردہ روایت کی توثیق تھی یا تردید؟قاضی صاحب نے اظہار المرام کے صفحہ 19 پر تو اس روایت کی تردید کی نفی کی ہے لیکن پھر آگے چل کر ص 22 پر خود ہی فرماتے ہیں:” اس پر مولانا عبدالسلام صاحب نے اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث میں شریک کوفی ہے اور اس کا حافظہ خراب ہوا تھا“۔ اب کیا سمجھاجائے کہ قاضی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ میں اس روایت کی تردید نہیں کرسکا یہ بات درست ہے کہ میں نے اس روایت پر اعتراض کیاہے
Flag Counter