Maktaba Wahhabi

856 - 896
شاید تردید کو اعتراض کا نام دے دیاجائے تو وہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے انکار واقرار کی یہ کیفیت عجیب ہے! ؎ گفتم کہ نمے آئی، آرے ونعم گوید اقرار ددرانکارے، انکار دراقرارے قاضی صاحب نے اس تردید کا جو جواب دیا ہے ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں: ”جواباً عرض ہے کہ اس روایت کو ترمذی نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں حسن غریب اورحاکم فرماتے ہیں صحیح علی شرط مسلم اور ابن حبان نے ابن حجر سے نقل کیاہے کہ اس حدیث کا صرف دوسرا جملہ ضعیف ہے“۔ (اظہار ص21) قاضی شریک پر مفسر جرح کی موجودگی میں کسی کی تحسین یا تصیح کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ جرح مفسر مقدم ہوا کرتی ہے خصوصاً یہ دو بزرگ توحسن اورصحیح کہنے میں بہت ہی متساہل واقع ہوئے ہیں چنانچہ محدثین نے فرمایا ہے(فلا تغتر بتحسين الترمذي وتصحيح الحاكم) اس لیے اصل یہی ہے کہ قاضی شریک کا حافظہ درست نہ ہوے کی وجہ سے یہ روایت پایہ اعتبار سے ساقط ہے۔ اور قاضی صاحب نے جو لکھاہے کہ ابن حبان نے ابن حجر سے نقل کیاہےتومحترم مولانا قاضی حمیداللہ صاحب الموصوف بالقایہ کو کون سمجھا ئےکہ ابن حبان ابن حجر سے نقل کرہی نہیں سکتے کیونکہ ابن حبان، ابن حجر سے سینکڑوں برس پہلے گزرے ہیں۔ شاید عالم مثال کی کسی ملاقات اور کراماتی اخذ واستفادہ ونقل وروایت کا ذکرقاضی صاحب نے کیاہو کیونکہ یہ تاویل وہ ہرالجھن میں امرت دھارے کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ قاضی صاحب فرماتے ہیں: ”اگر ہم مان بھی لیں کہ شریک ضعیف ہے مگر ابوداؤد نے تو یہی روایت دو اور طریقوں سے بھی نقل فرمائی ہے ایک طریق عبدالجبار کاہے اور دوسرا
Flag Counter