روشنی میں کندھوں تک اور کانوں کی لو تک دونوں کو سنت قراردینا درست نہیں کیونکہ حنفی حضرات عام طور پر سنت کے دو ہی معانی بیان کرتے ہیں۔ (1) جس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبت وہمیشگی کی ہو۔ (2)۔ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل میں لانا اس کے عمل میں نہ لانے سے اکثر وزیادہ ہو۔ اوران دونوں معنوں کے لحاظ سے ہاتھ اُٹھانے کی مذکورہ بالا دونوں کیفیتوں کو سنت کا نام نہیں دیاجاسکتا کہ ان دونوں کیفیتوں سے جس کیفیت پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی مواظبت یا کثرت تسلیم کی جائے گی دوسری کیفیت پر آپ کے عمل کی مواظبت اور کثرت خود بخود ختم ہوجائے گی اور وہ مذکورہ دونوں معنوں کی رو سے سنت نہ رہے گی۔ اس نوٹ سے مواضع ثلاثہ میں(رکوع جاتے، رکوع سے سراٹھاتے وقت اور دو رکعتوں سے اُٹھ کر) رفع الیدین کرنے اور نہ کرنے دونوں کے سنت ہونے والے نظریہ کی بھی قلعی کھل رہی ہے کہ حنفی اصطلاحات کی روشنی میں یہ صاحب تحریر کے مذکورہ بالا دعویٰ سے بھی ابتر ہے۔ رہے اہل حدیث تو ان کی تحقیق کے مطابق کندھوں اور کانوں تک ہاتھ اٹھانا دونوں سنت ہیں، اور رفع الیدین کرناتو سنت ہے جبکہ رفع الیدین نہ کرنا سنت کاترک اور اس کی مخالفت، دلائل کا یہ موقع نہیں کتابوں میں پڑھ لیں۔
زیرناف یا سینہ پر ہاتھ نہ باندھنے والوں پر فتویٰ
صاحب تحریرفرماتے ہیں’ جو حضرات نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کو غلط سمجھتے ہیں یا اس کے منکر ہیں یازیر ناف ہاتھ باندھنے کے عمل کوتوہین آمیز سمجھتے اور ان کامذاق اڑاتے ہیں ان بھائیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ سنت کا منکر بدعتی اور گناہگار ہوتا ہے اور مذاق اُڑانے سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ “
اس فتویٰ پر کئی وجوہ سے مناقشہ ہے، اولا زیر ناف ہاتھ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ہی نہیں، اس سلسلہ میں جتنی روایات ہیں سب ضعیف اور کمزور ہیں۔ کئی حنفی بزرگ ان کے ضعف کی تصریح فرماچکے ہیں۔ حتیٰ کہ صاحب تحریر نے خود اپنی اس
|