باندھیں اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ نماز میں کسی اور جگہ رفع یدین نہ کریں۔ شیخ ابوالحسن نے جواب دیا میں(آپ کےحکم کی تعمیل) نہیں کروں گا۔
قاضی صاحب نے انہیں ایک ایسی تاریک واندھیر کوٹھڑی میں قید وبند کرنے کا حکم دے دیا جس کوٹھڑی میں بوجہ تاریکی قیدی اپنے اعضاء بھی نہ دیکھ سکے اور پاخانہ بھی وہ اسی کوٹھڑی میں کرے چنانچہ شیخ ابوالحسن ایسی کوٹھڑی میں چھ دن محبوس رہے۔ مدینہ والے شیخ صاحب کو نصیحت کرتے کہ آپ قاضی صاحب کاحکم(ہاتھ زیر ناف باندھنا اور رفع یدین چھوڑنا) مان لیں اور قید سے رہا ہوجائیں۔ شیخ صاحب انہیں جواب دیتے”میں وہ کام نہیں کروں گا جو میرے نزدیک صحیح اور ثابت ہی نہیں اور وہ کام نہیں چھوڑوں گا جو میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہوچکا ہے“ اوراس جواب پر انہوں نےحلف وقسم اُٹھالی۔ لوگ قاضی کےپاس گئے تو قاضی نے بھی قسم اٹھالی کہ اگر اس نے(قاضی نے) شیخ صاحب کو سینے پر ہاتھ باندھے دیکھ لیا تو پھر وہ انہیں دوبارہ جیل میں ڈال دیں گے تو لوگوں نے شیخ صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ بدن پر لپیٹ کر کپڑے کے نیچے ہاتھ باندھ لیاکریں تاکہ شیخ اور قاضی دونوں کی قسمیں ٹوٹنے نہ پائیں تو شیخ صاحب نے لوگوں کےاس مشورہ کو قبول فرمالیا۔ اس کے بعد تھوڑی مدت ہی گزرنے پائی تھی کہ کسی نے آکر شیخ صاحب کو ان کی نماز میں قاضی صاحب کے فوت ہوجانے کی اطلاع دے دی تو شیخ صاحب نے فوراً وہ کپڑااتار پھینکا۔ “
شاہ ولی اللہ دہلوی کا ارشادِگرامی
ماقبل کی ساری بحث وتمحیص سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ناف سے اُوپراور سینے پر ہاتھ باندھنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس کے متعلق واردشدہ احادیث سے کئی ایک احادیث صحیح اور حسن بھی ہیں جن کی تفصیل پہلے لکھی جاچکی ہے اُدھرزیر ناف ہاتھ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اس سلسلہ میں حنفیوں کی طرف سے جتنی احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ سب کی سب ضعیف اور کمزورہیں اور
|