پڑھنے سے بشرط ثبوت بیس رکعات کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہونا لازم نہیں آتا ہاں ایک اثر میں یہ لفظ آئے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اکیس رکعات پرجمع کیا اور ایک دوسرے اثر میں یہ لفظ بھی آئے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو بیس رکعات پڑھانے کا حکم دیا مگر ان دونوں میں کلام ہے جو پہلے گزر چکا ہے البتہ اکیس رکعات والے اثر پر آئندہ بھی کلام ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ تو بیس رکعات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت قراردینا نادرست ہے کیونکہ نہ تو بیس پر انہوں نے مواظبت فرمائی بلکہ ایک دفعہ بھی بیس پڑھنا ان سے ثابت نہیں اور نہ ہی بیس پڑھنے کا انہوں نے کسی کو حکم دیا البتہ گیارہ رکعت ان کی سنت ہے کیونکہ گیارہ پڑھانے کا انہوں نے حکم دیا تھا نیز گیارہ اور تیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی سنت ہے فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ پھر عہد فاروقی میں لوگ گیارہ اور تیرہ پڑھتے بھی رہے۔
7۔ وسابعاً:صاحب رسالہ کا بیان ہے:
”زیرِغور آثار کے چند طریقے صحیح لذاتہ ہیں پھر کثرت طرق کی تائید نے ان کی صحت میں کئی گناہ اضافہ کردیا ہے“۔ الخ(ص 5)
ان آثار کے جونسے طریقے صحیح لذاتہ ہیں ان کی نشاندہی فرمادی جائے تاکہ دیکھا جاسکے آیا وہ صحیح بھی ہیں یا غیر صحیح رہے طرق کثیرہ تو ان کا حال پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔
4۔ ایک لطیف اشارے کی حقیقت
صاحب رسالہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لوگوں کوقیام رمضان میں ایک امام کی اقتدا پر جمع کرنے کا واقعہ نقل فرماتے ہیں جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول : (نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هٰذِهٖ)(یہ اچھی(بدعت)نئی چیز ہے) بھی موجود ہے بعدہ لکھتے ہیں:
واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک یہ بدعت کا لفظ تین باتوں پر مشتمل ہے:
1۔ ایک قاری کی اقتدا میں اجتماع۔
|