Maktaba Wahhabi

658 - 896
ثابت ہی نہیں۔ یاد رہے یہ بات قاری صاحب کے الفاظ میں فرق والے اُصول پر مبنی ہے ورنہ طحاوی والے الفاظ بھی ہمارے نزدیک حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا فیصلہ کی زد سے نہیں بچتے۔ 8۔ ثامناً: حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے فیصلہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رفع الیدین والی حدیث کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کے مقابلہ میں ذکر کرنا پھر ان دونوں میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رفع الیدین والی حدیث کو ثابت اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع الیدین والی روایت کو غیر ثابت قراردینا اس بات کی بین دلیل ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر عموم معنی ہے نہ کہ خصوص لفظ لہٰذا قاری صاحب کے خصوص لفظ والے عندیہ کو تو حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے ہی انداز بیان نے رد کر دیا ہوا ہے۔ 9۔ تاسعاً:قاری صاحب کے اس عندیہ کا حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ میں مذکور جملہ (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخ ) کے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہونے پر مدار ہے جس کی انھوں نے کوئی دلیل پیش نہیں کی باقی طحاوی والی روایت اس امر کی دلیل نہیں بن سکتی(كمالا يخفي علي اهل العلم) 10۔ عاشراً: ہماری تائید اور قاری صاحب کے مذکورہ بالا عندیہ کی تردید میں علماءکرام اور محدثین عظام کی شہادتیں ملاحظہ ہوں۔ پہلی شہادت: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت(الااصلي بكم الخ) دونوں کو ایک ہی باب کےاندر ذکر فرمایا ہے جس سے
Flag Counter