عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہونے پر موقوف ہے کیونکہ جو الفاظ انسان کو نامعلوم ہوں وہ ان سے متعلق کسی قسم کا کوئی فیصلہ صادر نہیں کر سکتا اور قاری صاحب نے طحاوی والے لفظوں کے حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں ہونے کی کوئی دلیل نہیں دی اس لیے ان کا فرض ہے کہ پہلے طحاوی والے لفظوں کے حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہونے کی دلیل پیش کریں پھر اپنا مندرجہ بالا عندیہ سنائیں جبکہ طحاوی والے لفظ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہونے کی صورت میں بھی ان کے فیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ ) کے دیگر الفاظ سے متعلق ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔
7۔ سابعاً سنن نسائی والی روایت(أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخ)کی سند میں حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ موجود ہیں جیسا کہ قاری صاحب کو بھی اس کا اعتراف و اقرار ہے تو پتہ چلا کہ یہ الفاظ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں ہیں اس لیے ان کا فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍالخ ) ان الفاظ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ سے متعلق ہے اور ان الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ میں وہ الفاظ بھی شامل ہیں جو ترمذی اور ابو داؤد میں منقول ہیں۔ اسی لیے اہل علم ان تین کتابوں میں سے ایک کتاب کے لفظ نقل کرنے کے بعد حوالہ تینوں کتابوں کا دیتے ہیں چنانچہ حنفی بزرگ صاحب آثار السنن نے بھی اس حدیث کو ترمذی کے الفاظ میں بیان کرنے کے بعد لکھا ہے (رَوَاهُ الثَّلاَثَةُ) اسی طرح مشکوۃ والے بھی اس کو نقل کرنے کے بعد ابو داؤد، ترمذی اور نسائی تینوں کا حوالہ دیا ہے تو ثابت ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍالخ ) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ابو داود، ترمذی اور نسائی میں مذکور روایت سے متعلق ہے کیونکہ ان کی طحاوی میں مذکور روایت کا تو حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں ہونا سرے سے
|