Maktaba Wahhabi

659 - 896
صاف ظاہر ہے کہ امام ترمذی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ کو اپنے نقل کردہ الفاظ سے بھی متعلق سمجھتے ہیں۔ رہا امام ترمذی کا قول ”حدیث حسن“ تو وہ اس کے منافی نہیں کیونکہ مؤلف بسا اوقات کسی کا فیصلہ نقل کرنے کے بعد اس سے اختلاف کا اظہار بھی کردیتا ہے نیز امام ترمذی کا کسی حدیث کو صرف”حسن “ کہہ دینا اس حدیث کے ان کے اپنے نزدیک بھی ثابت اور قابل احتجاج ہونے کی دلیل نہیں جیسا کہ ان کی اپنی ہی کتاب علل صغیر میں پیش کردہ حسن کی تعریف پھر ان کے اپنے ہی کتاب جامع میں کئی ایک احادیث سے متعلق”حسن“ والے فیصلہ جات سےواضح ہے ضرورت پڑی تو اس تعریف اور ان فیصلہ جات کو بھی منظر عام پر لایاجائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ، تاکہ پتہ چل سکے کہ جس حدیث کو امام ترمذی حسن قرار دیں ضروری نہیں کہ وہ حدیث واقع میں بلکہ خود امام ترمذی کےہاں بھی قابل احتجاج ہو۔ دوسری شہادت: حافظ بیہقی نےترمذی والی سند(وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمان بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبداللہ) کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کو بلفظ (أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟) نقل كرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن مبارک کا مذکور بالا فیصلہ درج کیا ہے جس کا صاف اور صریح مطلب یہی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک کافیصلہ حافظ بیہقی کے نزدیک ترمذی والی روایت سے بھی متعلق ہے۔ تیسری شہادت: علامہ ابن دقیق العید کا قول(عدم ثبوت الخبر عند ابن المبارك لا يمنع ثبوته عند غيره) الخ(معارف السنن بحوالہ نصب الرایہ) بتارہا ہےکہ وہ بھی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کےالفاظ سے کسی خاص لفظ کے ساتھ مخصوص نہیں سمجھتے بلکہ اس کے تمام الفاظ کو شامل
Flag Counter