جانا، سجدہ سے سراُٹھانا اور جلسہ سے دوسرے سجدہ میں جانا یہ سب حرکات ہیں جو سکون فی الصلوٰۃ کے منافی ہیں تو(اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ) کا تقاضا ہے کہ یہ مذکورہ بالا حرکات بھی ممنوع یا منسوخ ہوں کیونکہ قاعدہ ہے۔ (العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب) تو جس طرح نماز کے اندر یہ سب حرکات دوسرے دلائل کی بنا پر دُرست ہیں اسی طرح رکوع والا رفع الیدین بھی دوسرے دلائل کی وجہ سے درست، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورقابل اجروثواب ہے لہٰذا قاری صاحب کا حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی روایت سے رفع الیدین کے نسخ پر استدلال بے بنیاد ہے۔
6۔ سادساً اس لیے کہ رکوع جاتے اور اس سے سراُٹھاتے وقت رفع الیدین اگر سکون فی الصلاۃ کے منافی ہے تو لامحالہ نماز وتر کی تیسری رکعت میں رفع الیدین بھی سکون فی الصلاۃ کے منافی ہے اور (العبرة بعموم اللفظالخ)والا قاعدہ اس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے لہٰذا حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رکوع والے رفع الیدین کے نسخ پر استدلال غلط ہے ورنہ نماز وتر کی تیسری رکعت والے رفع الیدین کا نسخ لازم آئے گا۔ وَهُوَ كَمَا تَريٰ
منسوخیتِ رفع الیدین کی تردید از بزرگان حنفیہ
کئی ایک حنفی بزرگوں نے بھی دعویٰ”منسوخیت رفع الیدین“ کی تردید وتغلیط فرمائی ہے جن میں سے صرف تین بزرگوں کے اقوال نیچے درج کیے جاتے ہیں:
1۔ حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں:
(وأما دعوى نسخه كما صدر عن الطحاوي مغترا بحسن الظن بالصحابة التاركين وابن الهمام والعيني وغيرهم من أصحابنا فليست بمبرهن عليها بما يشفي العليل ويروي الغليل)
(التعليق الممجد علي مؤطا محمد ص 89 حاشيه 9)
|