ابی زیاد کی اس میں موجودگی کے بعدضعیف کہنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ اس سے پہلے آپ نے براء کی روایت بیان ہی نہیں کی تھی نہ میں نے کسی سے اس کا ضعیف ہونا نق کیا نہ یہ روایت کچھ وزن رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے ممدوح صاحب آثار السنن نے براء سے منسوب اس روایت کو اس قابل ہی نہیں سمجھاکہ اسےترک رفع کی دلیل کے طور پر نقل کریں۔ اورآپ ہیں کہ اس بالکل ہی غیر ثابت روایت کا بھی دفاع فرمارہے ہیں۔ (تجاوز اللّٰه عن ذنبک الجلي و الخفي)
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں بخاری کی بیان کردہ علت:
قاضی صاحب فرماتے ہیں:
”امام بخاری نے معلولیت کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ اس روایت میں ( ثُمَّ لَمْ يَعُدْ ) کی زیادتی عاصم بن کلیب کے شاگردوں میں سے صرف سفیان ثوری نقل کرتے ہیں اورعاصم بن کلیب کے ایک دوسرے شاگرد عبداللہ بن ادریس کی کتاب میں یہ زیادتی موجود نہیں اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اگر یہ زیادتی ثابت نہ ہوتب بھی حنفیہ کے لیے مضر نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ زیادتی ثابت ہے اس لیے کہ سفیان ثوری کی زیادتی ہے اور سفیان، عبداللہ بن ادریس کے مقابلے میں احفظ ہیں الخ“۔ (اظہار المرام ص 13)
اس کلام میں چند باتیں قابل غور ہیں:
1۔ اس روایت میں یہی علت بخاری کے علاوہ ابوحاتم اوراحمد بن حنبل وغیرہ نے بیان کی ہے مگر قاضی صاحب نے ان حضرات کی طرف یہ منسوب کردیا ہے کہ وہ اس حدیث کی علت عاصم بن کلیب کاتفرد بتاتے ہیں حالانکہ عاصم بن کلیب کے تفرد کی علت بیان کرنے والے محدثین اورہیں۔
2۔ قاضی صاحب نے جو فرمایاہے کہ( ثُمَّ لَمْ يَعُدْ ) کی زیادتی ثابت نہ ہوتب بھی حنفیہ کے لیے مضر نہیں۔ یہ درست نہیں کيونکہ مطلب يہ نہيں کہ صرف لفظ (ثُمَّ لَا
|