يَعُودُ) ثابت نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ الفاظ جو سفیان سے مختلف راویوں نےبیان کیے ہیں اور عبداللہ بن ادریس کی روایت میں موجود نہیں سب غیرثابت ہیں۔ کیونکہ مقابلہ سفیان اور عبداللہ بن ادریس کی روایتوں کا ہے اورسفیان کے بیان کردہ الفاظ خواہ(ثُمَّ لَا يَعُودُ) ہوں یا اس کے ہم معنی الفاظ، عبداللہ بن ادریس کی کتاب میں موجود نہیں ہیں۔ تو حنفیہ کا مدار جن الفاظ پر ہے ان میں سے کوئی بھی ثابت نہ ہو توحنفیہ کے لیے کیوں مضر نہیں؟شاید اس لیے مضر نہ ہوں کہ حنفیہ کو اس سے غرض ہی نہیں کہ کوئی لفظ حدیث میں ثابت ہے یا غیر ثابت ان کے لیے حجت ان کے خود ساختہ پیشواؤں کی بات ہوتی ہے نہ کہ حدیث۔
3۔ امام بخاری کےاعتراض کا جواب جو قاضی صاحب نے دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ بخاری کی بات کو نہیں سمجھے۔ بخاری نے سفیان اور عبداللہ بن ادریس کے حافظے کا مقابلہ کیا ہی نہیں کہ عبداللہ بن ادریس کو احفظ قراردے کر سفیان کی زیادتی کو معلول قراردیا ہو۔ اگرایسا ہوتا تو قاضی صاحب کا یہ کہنا درست تھا کہ”یہ زیادتی ثابت ہے اس لیے کہ سفیان ثوری کی زیادتی ہے اور سفیان عبداللہ بن ادریس کے مقابلے میں احفظ ہیں الخ“ بخاری نے تو مقابلہ کیا ہے سفیان کے حافظہ کا اور عبداللہ بن ادریس کی تحریر کردہ کتاب کا۔ اور کتاب کا احفظ ہونا اظہر من الشمس اور قرآن مجید کی نص سے ثابت ہے:
(وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا)
تو لکھی ہوئی بات کا حافظہ کی بہ نسبت شہادت میں زیادہ مضبوط ہونا اور شک سے بعید ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اور اسی بنا ء پر امام بخاری اور دوسرے محدثین نے سفیان کی زیادتی کو غلط قراردیا ہے۔ محترم قاضی صاحب کو تعجب ہوا ہے کہ وہی سفیان جسے آمین کی روایت میں شعبہ کے مقابلے میں احفظ قراردیاگیا تھا یہاں( لَا يَعُودُ) کے الفاظ اس
|