باسمه سبحانه وتعاليٰ
محترم جناب! مولانا حافظ عبدالمنان صاحب مدظلکم العالی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !میرے رسالہ” بیس رکعات تراویح کا شرعی ثبوت، پر آپ کا تبصرہ میرے لیے موجب مسرت ہے اللہ آپ کو جزائےخیر دے کہ آپ نے بڑی محنت سے کام لے کراس خدمت کوسرانجام دیا ہے آپ کا تبصرہ میرےلیے مفید معلومات کاذخیرہ ثابت ہوا ہے آپ نے جن خامیوں کی طرف توجہ دلائی ہے اگر موقع ملا تو آئندہ طباعت میں ان شاء اللہ یہ دور کردی جائیں گی سردست میں چند چیزیں آپ کے زیر نظر لے آنا مناسب سمجھتا ہوں۔
1۔ شارح ترمذی محدث مبارکپوری علیہ الرحمۃ اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں ابن فنجویہ کے متعلق رقمطراز ہیں:
(قُلْتُ: فيِْ اسناده اَبْوعَبدِاللّٰه بنُ فَنْجَوَيْهِ الثَّقَفِيُّ، الدِّيْنَوَرِيُّ وَلَمْ أَقِفْ عَلَى تَرْجَمَتِهِ فَمَنْ يَدَّعِي صِحَّةَ هَذَا الْأَثَرِ فَعَلَيْهِ أَنْ يَثْبُتَ كَوْنَهُ ثِقَةً)
”میں کہتا ہوں :اس کی سند میں ابوعبداللہ بن فنجویہ دینوری ہے اور مجھے اس کے حالات نہیں مل سکے تو جو شخص اس اثر کے صحیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ اس شخص کاثقہ ہونا ثابت کرے۔ “
تولیجئے العبر فی خبر من غبر ج 3 ص 116 غالبا کا مطالعہ فرمائیے اور ابن فنجویہ کی ثقات کا ثبوت علامہ ذھبی سے لیجئے:
(ا بنِ فَنْجَوَيْهِ الثَّقَفِيُّ، الدِّيْنَوَرِيُّ وَكَانَ ثِقَةً مصنفاً ر ويٰ عن ابي بكر بن السني وعيسي بن حامل الرخمي وطبقتهما وحصل له حشمة ومال)
(ابن فنجویہ اور وہ ثقہ مصنف تھا اس نےابوبکر بن سنی اور عیسی بن حامد زخمی اور ان کے طبقہ سے روایت کی اوراسے حشمت اور مال حاصل ہوا)
|