2۔ آپ نے اپنے تبصرہ کے صفحہ نمبر11 پرتحریر فرمایا ہے کہ ”صاحب رسالہ کی خدمت میں درخواست ہے کہ وہ اس اثر کی امام مالک سے نیچے کی سند سے بندہ کو مطلع فرمائیں“ نیچے کی سند پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیے:
(قَالَ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ السُّنَنِ وَاْلآثَار: أَخْبَرَنَا اَبُوْزَكَرياَّ قَالَ حَدَّثَناَ اَبُوْ الْحَسَنِ الطَّرَائِفِيُّ قَالَ حَدَّثَناَ عُثْمَانُ بْنُ سَعِيْدٍ حَدَّثَناَ يَحْيَي بْنُ بُكَيْرِ قَالَ حَدَّثَناَ مَالِكٌّ حَدَّثَنيْ يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللّٰه عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ) (رواہ البیہقی فی معرفۃ السنن والآثار قلمی نسخہ ص 367)
”بیہقی نے معرفۃ السنن والآثار میں فرمایا:ہمیں ابوزکریا نے خبر دی انہوں نے کہا ہمیں ابوالحسن طرائفی نے بیان کیا انہوں نےفرمایا ہمیں یحییٰ بن بکیر نے بیان فرمایا انہوں نے فرمایا ہمیں مالک نے بیان کیا انہوں نےفرمایا ہمیں یزید بن خصیفہ نے سائب بن یزید سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت عمررضی اللہ عنہ بن خطاب کے زمانہ میں بیس رکعت اور تین وتر قیام کرتے تھے“۔
3۔ عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں آپ کے ذہن میں جو اشکال ہیں اس کے لیے ملاحظہ فرمائیے فتح الباری کا مقدمہ ہدی الساری ج 2 ص 143۔
محمد عارف
25 دسمبر 1978ھ
از(مولانا) غلام سرور(صاحب)
چنن۔ ضلع گجرات
1۔ ابوعبداللہ فنجویہ بن الدینوری کی ثقاہت کی العبر اور دیگر کتب کے مطالعہ سے تحقیق کی جائےگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔
2۔ اس اثر کی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نیچے کی سند کی بھی تحقیق کی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
|