سوالات کے جوابات کی تخریج کی قدرت رکھتےتھے۔ اھ۔ “
ان لوگوں کے وہاں کمال یہ تھا کہ حقیقی پیش آمدہ واقعات ہوں یافرضی مسائل سب کا جواب اپنی ذہانت وفطانت سے اپنے اساتذہ کے کلام سے تخریج کرکے دیں۔ پھر ان اقوال وجوابات کے مجموعے تیار ہوگئے جن کے ساتھ دلائل حدیثہ ذکر نہیں ہوتےتھے بلکہ اپنے اساتذہ کی لیاقت پر ہی اعتماد ہی اصل دلیل تھی پھرپھر قرون خیر کے دورہونے کے ساتھ ساتھ سلاطین وخلفانے اپنی مصلحتوں کے لیے ان اقوال اوراصحاب اقوال کوبزور حکومت تمام اسلامی قلمرو پر مسلط کردیا۔ یہ لوگ اہل الرائے اور ان کی فقہ فقہ اہل الرائے کہلاتی ہے۔
فقہ اہل الرائے کے لیے دلائل کی تلاش:
جب کچھ زمانہ گزرا تو بعد میں آنے والوں نے اپنے علماء کے اقوال کے دلائل کی تلاش شروع کی مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ دم بدم” قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا “ کی صداآرہی تھی۔ حریفوں نے اپنی بات دلیل سے بیان کی تھی اس کا وزن بہرحال مسلم تھا اور یہاں اپنوں کا ترتیب دادہ کوئی جامع مجموعہ حدیث ہی نہ تھا جس سے دلیل پیش کرسکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حریف اتنے دیانت دار تھے کہ انہوں نے وہ دلائل بھی( صحیح ہوں یاضعیف) جمع کردئیے جن سے اہل الرائے استدلال کرتے ہیں۔ اہل الرائے نے اہلحدیث کے مدون کردہ مجموعوں سے اپنے دلائل جمع کئے مگر ہر بات کی دلیل نہ مل سکی کیونکہ اس کا وجود ہی نہ تھا چنانچہ اس میدان میں اپنی بے بضاعتی کے اعتراف کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ کارنہ رہا چنانچہ مولانا انور شاہ کشمیری سابق صدر مدرس دارالعلوم دیوبند کے صاحبزادے سید انظر شاہ مسعودی اپنے والد محترم کی سوانح حیات” نقش دوام“ میں لکھتے ہیں:
”یہ عجیب تاریخ کا راز ہے جس کی وجوہ علل کا دریافت تاریخ کا سب سے بڑا انکشاف ہوگا کہ حدیث کے بیشتر وہ مجموعے جو آج ہمارے کتب خانوں
|