على استنباط الفقه على الأصول التي اختارها أهل الحديث، ولم تنشرح صدورهم للنظر في أقوال علماء البلدان، وجمعها والبحث عنها، واتَّهموا أنفسهم في ذلك، وكانوا اعتقدوا في أئمتهم أنهم في الدرجة العليا من التحقيق، وكانت قلوبهم أمثل شيءٍ إلى أصحابهم، كما قال علقمة: هل أحدٌ منهم أثبت من عبد الله؟ وقال أبو حنيفة: إبراهيم أفقه من سالم، ولولا فضل الصُّحبة لقلت: علقمة أفقه من ابن عمر؛ وكان عندهم من الفطانة والحدسِ وسرعة انتقال الذهن من شيءٍ إلى شيءٍ ما يقدرون به على تخريج جواب المسائل على أقوال أصحابهم) (حجۃ اللہ البالغہ ص، 152، ج1)
ترجمہ:”وہ یہ کہ ان کے پاس اس قدر احادیث وآثار موجود نہ تھے جن سے وہ ان اصولوں کے مطابق فقہ کے استنباط پر قادر ہوسکیں جو اہل حدیث نے اختیار فرمائے تھے اور دوسرے شہروں کے علماء کےاقوال میں غور وفکر انکی جستجو اور انہیں جمع کرنے کے لیے انہیں شرح صدر نہ تھا اور اس(کاردشوار) میں انہوں نے اپنے آپ کو متہم سمجھا اور وہ اپنے علماء کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ تحقیق کے درجہ علیاء پرفائز ہیں اور ان کے دل اپنے اصحاب کی طرف بہت زیادہ مائل تھے جیسا کہ علمقہ نے فرمایا:”کیا ان(صحابہ) میں عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ بھی کوئی(علم میں) پختہ ہے اور ابوحنیفہ نے فرمایا:”ابراہیم، سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اگر صحابی ہونے کی فضیلت نہ ہوتی تو میں کہہ دیتا کہ علقمہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ فقیہ ہیں۔ “اور ان لوگوں کے پاس فطانۃ، حدس اور ایک چیز سےدوسری چیز کی طرف ذہن کی سرعۃ انتقال کی ایسی صلاحیت تھی جس کےساتھ وہ اپنے اصحاب کے اقوال کے مطابق
|