ہے جو آپ نے نقل کی مگر اس کا حال یہ ہے کہ بہت سے جلیل القدر محدث اسے ثابت نہیں مانتے۔
((قال الحافظ بن حجر في التلخيص: وھذا الحدیث حسنہ الترمذی وصححہ ابن حزم و قال ابن المبارك لم يثبت عندي. قولا ابن أبي حاتم عن أبيه قال: هذا حديث خطأ. وقال أحمد بن حنبل وشيخه يحيى بن ادم: هو ضعيف نقله البخاري عنهما وتابعهما على ذلك. وقال أبو داود ليس هو بصحيح. وقال الدارقطني لم يثبت. وقال ابن حبان في الصلاة: هذا أحسن خبر روى لأهل الكوفة في نفي رفع اليدين في الصلاة عند الركوع وعند الرفع منه، وهو في الحقيقة أضعف شئ يعول عليه لأن له عللا تبطله)
(تحفۃ الاحوذی ص220ج1)
ترک رفع یدین کی روایت کا ثابت نہ ہو نا:
مطلب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر تلخیص میں لکھتے ہیں کہ”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن اور ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح کہا اور حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ میرے ہاں ثابت نہیں اور ابو حاتم کہتے ہیں یہ روایت خطا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے استاد یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیہ دونوں فرماتے ہیں۔ وہ روایت ضعیف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں بزرگوں کا یہ فیصلہ ان دونوں سے نقل فرمایا اور اس فیصلہ پر ان دونوں کی متابعت و موافقت کی اور امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و ہ روایت صحیح نہیں اور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ ثابت نہیں۔ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کوفیوں کے لیے نماز میں رکوع جاتے اور اس سے سر اٹھاتےوقت رفع الیدین کی نفی میں جتنی روایات ہیں ان میں یہ روایت سب سے اچھی ہے اور درحقیقت وہ سب سے کمزور شئے ہے کیونکہ اس میں کئی علتیں ہیں جو اسے باطل ٹھہراتی ہیں۔
|