تو آپ نے رفع الیدین کے ثابت ہونے بلکہ اس کے سنت غیر مؤکدہ ہونے کو تو تسلیم فرما لیا ہوا ہےورنہ آپ ہم سے یہ نہ کہتے کہ رفع الیدین کا سنت مؤکدہ ہونا ثابت کر دو تو میں اس پر عمل شروع کردوں گا۔ اسی طرح اگر آپ رفع الیدین کے سرے سے منکر ہوتے تو پھر ہمیشگی والا سوال بھی آپ کبھی نہ کرتے تو آپ کے اپنے سوال کو ہمیشگی اور مؤکدہ کے ساتھ مقید کرنے سے صاف صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ رفع الیدین کے سنت غیر مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں تو میرے اثبات کی احادیث پیش کرنے کا مقصد بھی تو یہی تھا ناکہ رفع الیدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور آپ کی سنت ہے اور اس بات کو آپ تین مقاموں پر تسلیم فرما چکے ہیں۔
پہلا مقام
آپ کا دعوائے نسخ اس بات کا شاہد صدق ہے کہ آپ رفع الیدین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ مانتے ہیں ورنہ آپ کا اسے منسوخ کہنا کوئی معقول بات نہیں اور اس پہلے مقام کی بندہ اپنے پہلے رُقعہ جات میں کئی دفعہ تحریر کر چکا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
1۔ قاری صاحب رفع الیدین کے منسوخ ہونے کے مدعی ہیں اور رفع الیدین کی منسوخیت ان کا دعویٰ ہے تو واضح بات ہے کہ ان کے اس دعویٰ میں رفع الیدین کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ثابت ہونے کا اعتراف واقرار موجود ہے لہٰذا ہمیں اس مقام پر صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ، صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ، سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ، سنن ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، سنن نسائی رحمۃ اللہ علیہ، سنن ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ، مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ، شرح معانی الآثار للطحاوی رحمۃ اللہ علیہ، سنن دراقطنی رحمۃ اللہ علیہ، سنن کبری للبیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر کتب حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع جاتے اور اس سے سراُٹھاتے وقت رحمۃ اللہ علیہ کرنے کو ثابت کرنے والی احادیث کو نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم آپ کو اس جگہ صرف اور صرف یہ
|