ثابت کرنے کے لیے پور ا زور قلم صرف کیاجاتاہے۔ ایک راوی کی حدیث ا پنے حق میں ہوتو وہ امیر المومنین فی الحدیث ہے اوراگر اسی کی حدیث اپنے خلاف ہوتو وہ کذاب اوردَجَّالُ مِنَ الدَّجَا جِلَهْ ہے۔ وللتفصیل موضع آخر اگررجال اور اصول میں بصیرت رکھنے والا کوئی شخص یہ کتابیں پڑھے تو اس تلون پر حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا: ؎
اپنا بنا لیا کبھی بیگانہ کردیا
یہ دھوپ چھاؤں حسب ضرورت بھی خوب ہے
3۔ کتب حدیث کی شروح وحواشی:
کتب حدیث کے مصنفین اور شارحین کے اہل حدیث ہونے کی وجہ سے کتب حدیث پڑھاتے وقت طلبہ کےمتاثر ہونے کا خطرہ تھا۔ اس کے لیے تقریباً تمام کتب حدیث کے حواشی حنفی نکتہ نظر سے لکھے گئے اور حنفی ناشرین نے بڑی محنت سے شائع کیے۔ اس سے صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ حدیث کا متن کچھ کہتا ہے اور حاشیہ کچھ اور ہی باور کرانے کی کوشش میں ہے۔ بظاہر حاشیہ حل کتاب کے لیے ہے مگر پڑھیں تو ثابت ہوتا ہے کہ رد کتاب کے لیے ہے صحیح بخاری پر مولانا سہارنپوری کا حاشیہ اس کی بین مثال ہے اسی طرح مؤطا ابوداود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ پرحنفی علماء کے حواشی دراصل متون حدیث کی تردیدی کاوشیں ہیں۔
اسی طرح کتب حدیث کی ان شروح کی جگہ جو اہل حدیث نے لکھی تھی حنفی نکتہ نظر سے شروع لکھی گئی۔ عمدۃ القاری للعینی، فتح المہلم، بذل المجہود، اوجز المسالک، مرقاۃ اسی نظریہ کی پیداوار ہیں۔ مشکوٰۃ کی مشہور شرح مرقاۃ کے مصنف نے تو سبب تصنیف میں لگی لپٹی رکھے بغیر صاف لکھا ہے:
(وأيضا من البواعث أن غالب الشراح كانوا شافعية في مطلبهم وذكروا المسائل المتعلقة بالكتاب على منهاج مذهبهم
|