پیش کردیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ رفع الیدین کیا ہو“تو ان کا مندرجہ بالا سوال بتا رہا ہے کہ قاری صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع الیدین کرنے کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ کا رفع الیدین کرنا کسی حدیث ہی میں مذکور ہے تو قاری صاحب نے یہ سوال فرما کر اعتراف فرما لیا کہ رفع الیدین کرنے کی حدیث موجود ہے اور ہے بھی قابل احتجاج ورنہ اسے منسوخ کہنے کی کیا ضرورت ؟نیز ہمیشگی والا سوال کرنے کی کیا حاجت؟تو جب خود قاری صاحب کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع الیدین کرنے نیز اس کی حدیث کے قابل احتجاج ہونے کا علم اور اعتراف ہے تو پھر بندہ سے حدیث پیش کرنے کا مطالبہ کیوں؟اور اسے حدیث پیش نہ کر سکنے کا طعنہ کیسا ؟اللہ تعالیٰ کا ڈراسی کو کہتے ہیں؟
تیسرا مقام
قاری صاحب کا سوال ”رکوع جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع الیدین سنت مؤکدہ ہے؟“بھی اس بات کی بین دلیل ہے کہ قاری صاحب کو ان مقاموں پر رفع الیدین کے سنت غیر مؤکدہ ہونے کا اعتراف واقرار ہے ورنہ اپنے سوال کے اندر سنت کو مؤکدہ سے مقید نہ فرماتے اور واضح ہے کہ رفع الیدین کا ان کےہاں سنت غیر مؤکدہ ہونا آخر کسی قابل احتجاج حدیث ہی سے ثابت ہے تو یہ سوال کرکے قاری صاحب نے اپنے دعوائے نسخ کی تردید فرما دی، نیز یہ سوال کر کے قاری صاحب نے بھی اعتراف واقرار فرما لیا کہ رفع الیدین کرنے کی قابل احتجاج حدیث موجود ہیں تو پھر ان کا بندہ سے حدیث پیش کرنے کا مطالبہ کیوں؟اور اسے حدیث پیش نہ کر سکنے کا طعنہ کیونکر؟آیا ان کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کا ڈراسی کا نام ہے؟
قاری صاحب مزید لکھتے ہیں”اور نہ ہی ان شاء اللہ العزیز کوئی حدیث[1]
|