رفع الیدین سے انکار پر دلالت کرنے والی باتیں ضرور بنانا ہی تھیں تو از روئے انصاف آپ کا فرض تھا کہ پہلے آپ میرے مندرجہ بالا رد کا جواب دیتے جو صرف اور صرف یہی بن سکتا تھا کہ جملہ”اور دلیل منسوخیت پر بھی“میں نے کہا نہ لکھا یا اس جملہ کی منسوخیت رفع الیدین کے میرا دعویٰ ہونے پر دلالت نہیں اور یہ جواب قاری صاحب ابدالآباد تک نہیں دے سکتے کیونکہ جملہ”اور دلیل منسوخیت پر بھی“وہ کہہ اور اپنے پہلے رقعہ میں لکھ چکے ہیں نیز اس جملہ کی منسوخیت رفع الیدین کے ان دعویٰ ہونے پر دلالت بھی واضح ترین ہے۔
نیز آپ نے اپنے ہی دعویٰ ” منسوخیت رفع الیدین“سے انکار پر دلالت کرنے والی باتیں بنانے کے بعد چار و ناچار لکھا”تو خیر میرا دعویٰ ہے منسوخیت رفع الیدین کا“(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص3) تو آپ کے ہی اس صریح بیان سے ثابت ہو گیا کہ آپ کی اس سے قبل بنائی ہوئی آپ کے دعوائے منسوخیت سے انکار پر دلالت کرنے والی باتوں میں انصاف ملحوظ رکھا گیا ہے نہ اللہ تعالیٰ کا ڈر۔
حضرت جابر بن سمرۃ ر ضی اللہ عنہ والی روایت سےنسخ رفع الیدین پر استدلال کی روایت:
اس عنوان کے تحت بندہ نے اپنے پہلے رقعہ میں چھ جوابات سے ثابت کیا تھا کہ قاری صاحب کا حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ والی روایت سے نسخ رفع الیدین پر استدلال غلط ہے اب کہ قاری صاحب نے ان چھ جوابات سے کچھ پر کلام کیاہے۔ نیچے وہ جوابات پیش کیے جاتے ہیں۔ نیز ان پر قاری صاحب کے کلام کی خامی اور کمزوری واضح کی جاتی ہے تو آپ بغور سماعت فرمائیں۔
پہلاجواب
بندے نے اپنے پہلے رقعہ میں لکھا تھا” رہاحضرت قاری صاحب کا حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے نسخ رفع الیدین پراستدلال تو وہ نادرست ہے۔
1۔ اولاً تو اس لیے کہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ(مَالِي أَرَاكُمْ
|