میں بھی یہی پڑھی جاتی ہیں، اور درس ووعظ کے موقعہ پر بھی قرآن مجید کی اُردو تفسیر یا حدیث کے ترجمے کی بجائے یہی پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ عام طور پر جماعت کا کوئی مبلغ جب زبانی وعظ کرتا ہے تو کہنا ہے کہ کلمہ کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ سے سب کچھ ہو سکنے کا یقین اور غیر اللہ سے کچھ نہ ہو سکنے کا یقین۔
مگر آپ مندرجہ ذیل حکایات جو انھوں نے فضائل حج میں ذکر فرمائی ہیں کو پڑھیں اور دیانتداری سے بتائیں کہ کیا ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب سمجھا گیا ہےیا نہیں، ان کو حاجات میں پکارا گیا یا نہیں۔ انہیں نفع و ضرر پہنچانے والا بنایا گیا ہے یا نہیں؟
بھوک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض اور آپ کا روٹی عطا کرنا:
حکایت نمبر8:شیخ ابو الخیر اقطع فرماتے ہیں۔ میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ حاضر ہوا اور پانچ دن ایسے گزر گئے کہ کھانے کو کچھ بھی نہ ملا۔ کوئی چیز چکھنے کی بھی نوبت نہ آئی۔ میں قبر اطہر پر حاضر ہوا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین پر سلام عرض کر کے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں آج رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بنوں گا۔ یہ عرض کر کے وہاں سے ہٹ کر منبر شریف کے پیچھے جا کر سو گیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ دائیں جانب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور بائیں جانب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ علیہ نے مجھے کو بلایا اور فرمایا دیکھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ میں اٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک روٹی مرحمت فرمائی، میں نے آدھی کھائی اور جب آنکھ کھلی تو آدھی میرے ہاتھ میں تھی۔ (فضائل حج از مولانا زکریا ص128، مکتبہ اشرفیہ رائے ونڈ)
حکایت نمبر23 میں بھی تقریباً یہی چیز بیان ہوئی ہے۔ ص133
حکایت نمبر22میں ہے کہ ایک صاحب نے بھوک سے تنگ آکر عشاء کے وقت قبر طہر پر حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! بھوک۔۔ ۔ چنانچہ آگے ان کے کھانے
|