پہلے ہونے کی کوئی ایک دلیل بھی پیش نہیں فرمائی فعل اور ترک کے راوی صحابی کا ایک ہونا فعل کے ترک سے پہلے ہونے کی دلیل نہیں اس لیے ان کی بات ”رفع الیدین منسوخ ہے“ صرف منہ کی ایک بات ہے جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں۔
4۔ رابعاً، اگر منہ کی بات ہی آپ لوگوں کے ہاں کافی سمجھی جاتی ہے تو پھر رفع الیدین کے قائل اور مدعی بھی کہہ دیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پہل رفع الیدین نہیں کیا کرتے تھے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین شروع کردیا لہٰذا رفع الیدین کو منسوخ کہنا غلط اور نادرست ہے۔
5۔ خامساً، بالفرض ترک کو چند منٹ کے لیے متاخر سمجھ لیاجائے پھر بھی رفع الیدین کو منسوخ قراردینا دُرست نہیں کیونکہ کسی چیز کاترک اس کے سنت ہونے کے منافی نہیں چنانچہ بعض حنفی بزرگ ہی لکھتے ہیں:
(السُنة: ما واظب النبي صلى اللّٰه عليه وسلم عليها، مع الترك أحيانا)
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی اس کو ترک کردینا تو رفع الیدین کے سنت ہونے کو واضح اور اُجاگر کرتا ہے نہ کہ اسے منسوخ بناتا ہے۔
6۔ سادساً، بندہ کی مذکورہ چار باتیں دوسری، تیسری، چوتھی اورپانچویں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی ترک رفع الیدین والی روایت کی صحت فرض کرلینے پر مبنی ہیں ورنہ وہ روایت حقیقت اور واقع میں سرے سے قابل احتجاج ہی نہیں جیسا کہ اس سے پہلے لکھا جاچکا ہے لہٰذا اس کو ناسخ بنانا سراسر غلط ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت بھی قابل احتجاج نہیں:
اس عنوان کے تحت بندہ نے لکھا تھا” حضرت قاری صاحب نے کتاب ترمذی کے جس باب سے امام ترمذی کا
قول حديث ابن مسعود حديث حسن نقل کیا ہے كتاب ترمذی کے اسی باب میں حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد
|