قاری صاحب اپنے اس قول میں تاثر دے رہے ہیں کہ ہمارے دعویٰ”رفع الیدین“ کی دلیل میں کوئی ایک حدیث بھی موجود نہیں ورنہ ان کے غیرمقلدین کی طرف سے قیامت تک کوئی حدیث پیش نہ کرسکنے والی پیشگوئی لکھنے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور اب خود ہی اعتراف واقرار فرمارہے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما رفع الیدین والی حدیث روایت کرتے ہیں اور وہ منسوخ ہے پھر ان کی اس بات میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی رفع الیدین والی حدیث کےصحیح ہونے کااقرار واعتراف بھی موجود ہے ورنہ قاری صاحب کے اس کو منسوخ قراردینے کا کوئی جواز نہیں تو قاری صاحب نے مان لیا کہ ہمارے دعویٰ”رفع الیدین“پر بطورِ دلیل حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی مرفوع اور صحیح حدیث موجود ہے اور انہوں نےخود ہی اس کاذکر بھی کردیا تو بحمداللہ تعالیٰ ہم تو اپنے دعویٰ”رفع الیدین“ پر دلیل پیش کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش اورعہدہ براء ہوچکے، اب قاری صاحب کا فرض ہے کہ اپنی قیامت تک والی پیشگوئی اور اپنے موجودہ بیان”وہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جوحدیث رفع الیدین روایت کرتے ہیں الخ“ پرغور وفکر فرمائیں آیا ان میں بھی اللہ تعالیٰ کےڈر کو ملحوظ رکھا گیا ہے؟
2۔ ثانیاً، قاری صاحب کے قول” لہٰذا ثابت ہوا مولانا صاحب رفع الیدین منسوخ ہے“کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک ہی صحابی کا ایک ہی چیز کے فعل اور ترک کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا اس چیز کے فعل کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے کسی اورشرط کی کوئی ضرورت نہیں تو قاری صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ پہلے اس بنیادی بات کو دلائل سے ثابت کیجئے پھر” لہٰذا ثابت ہوا رفع الیدین منسوخ ہے“ کہیے۔
3۔ ثالثاً، قاری صاحب کو بھی علم ہے کہ نسخ کے لیے منسوخ کاناسخ سے پہلے کا ہونا بھی ضروری ہے اور قاری صاحب نے رفع الیدین کےترک رفع الیدین سے
|