تو قاری صاحب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی مسند حمیدی والی روایت جو آپ نے پیش کی ہوئی ہے سرے سے قابل احتجاج ہی نہیں۔ اس پر مولانا ارشادالحق صاحب اثری زید مجدہ نے اپنے رسالہ میں سات وجوہ سے کلام کیا ہے وہ رسالہ متعلقہ صفحات کی نشاندہی کے ساتھ آپ کی خدمت میں بھیجا جاچکا ہے چنانچہ وہ صفحات ہیں ص 25 تا29، ان صفحات کو پڑھیں اور ان میں مذکور وجوہ کا جواب دیں۔ اگر ان صفحات کو میں اس جگہ نقل کروں پھر بھی تو آپ نے ان کو پڑھنا ہی ہے ناتوپھر آخر ان کو اصل رسالہ ہی میں پڑھ لینے میں کیا مضائقہ ہے۔ یاد رہے وہ رسالہ آپ کو پہنچ بھی چکا ہے۔ رہی آپ کی بات”آپ ہی نے کوئی شک وشبہات اور اعتراض نہیں کیے“ تو جناب بتائیے میرا اس روایت کو” سرے سے قابل احتجاج ہی نہیں“ کہنا بھی کوئی شک، شبہ اور اعتراض ہے یا نہیں؟
قاری صاحب مزید لکھتے ہیں” وہی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھما جو حدیث رفع الیدین والی روایت بیان کرتےہیں روایت [1] کرتے ہیں وہی ترک رفع الیدین والی بھی روایت کرتے ہیں لہٰذا ثابت ہوامولنا 1 صاحب رفع الیدین منسوخ ہے“۔ (قاری صاحب کا رقعہ نمبر5 ص5)
1۔ اولاً قاری صاحب پہلے لکھ چکے ہیں” اور تم ہو رفع الیدین کے قائل اور مدعی اوردلیل جو ہوتی ہے اصول کے لحاظ سے مدعی کے ذمہ ہے نہ کہ مدعیٰ علیہ پر۔ اس بنا پر میں نے آپ کو چیلنج دیا تھا کہ کوئی حدیث پیش کردیں الخ میں رفع الیدین شروع کردوں گا لیکن آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کیں اور نہ ہی ان شاء اللہ العزیز کوئی حدیث آپ پیش کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اورغیر مقلدین قیامت تک۔ (ان کا رقعہ نمبر 5 ص3وص 1)
|