(وأخفيٰ بِهَا صَوْتَهُ) یعنی آمین کو زور سے نہیں پڑھتے تھے۔
حقیقت ِحال
طیالسی اور مستدرک حاکم تو میرے پاس اس وقت موجود نہیں، ترمذی موجود ہے۔ مگر آپ نے جو الفاظ ترمذی کی طرف منسوب کیے ہیں(وأخفيٰ بِهَا صَوْتَهُ) وہ ترمذی میں نہیں ہیں۔ اللہ سے ڈریں حوالہ غلط نہ دیا کریں۔ اللہ بہتر جانتا ہے طیالسی اورمستدرک میں بھی ہیں یا نہیں۔ آپ کانقل میں ثقہ نہ ہونا تو اس حوالہ سے اور سجدتین میں رفع الیدین کے حکم کے حوالہ سے ثابت ہوچکا ہے۔ یاد رہے(خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ)اور(أخفيٰ بِهَا صَوْتَهُ) کا مفہوم بالکل جدا جدا ہے خفض صوت اور چیز ہے اور اخفاءِ صوت دوسری چیز۔ ایک میں آواز ہوتی ہے دوسری میں نہیں۔
آپ فرماتے ہیں: اور جن روایات میں زور سے آمین آیا ہے تو یہ جہر کبھی کبھی تعلیم کے لیے آپ فرماتے تھے جیسے حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعادمیں بھی تصریح فرمائی ہے کہ آمین پوشیدہ ہے البتہ تعلیم کے لیے جہرجائز ہے۔ اب ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ بھی کافر ہوگئے۔ العیاذباللہ۔
کیا ابن القیم نے بلند آواز سے آمین کو تعلیم کے لیے قراردیاہے
حقیقت ِحال
ابن قیمؒ سے جو بات آپ نے نقل کی ہے اُسے دکھانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ فرمائیے کون سے باب یاصفحے میں انہوں نے یہ فرمایا ہے۔ میں نے تو زادالمعاد میں متعلقہ مقام کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا ہے:
(فإذا فرغ من قراءة الفاتحة قال آمين، فإن كان يجهر بالقراءة، رفع بها صوته، وقالها من خلفه)
(زاد المعاد ج1ص 52 مطبوعہ دارالکتاب بیروت)
یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فاتحہ پڑھ کر فارغ ہوتے تو آمین کہتے، اگرجہر کے ساتھ قراءۃ کررہے ہوتے تو آمین بلندآواز سے کہتے اور جولوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے
|