درود شریف سے بے پروائی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کے ساتھ درود لکھنے سے قاضی صاحب نےبےحد لاپروائی اختیار کی ہے اظہارالمرام میں چند مقامات پر آپ کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہے ورنہ اکثر ؐ لکھا ہے یا صلعم اور بہت سے جگہوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر درود کے بغیر ہی کیا ہے ؐ یا صلعم بھی نہیں لکھا۔ بلکہ کتب حدیث سے جو روایتیں نقل کی ہیں اصل کتابوں میں پورا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے مگرقاضی صاحب نے کہیں ؐ کردیا ہے کہیں صلعم مثلاً اظہار المرام کے ص 9 پر نسائی کی روایت، ص 10 پر تعلیق آثار السنن سے منقول دوروایتوں، ص 11 پر ترمذی کی ایک عبارت، ص 17 پر طیالسی وغیرہ کے حوالے سے وائل رضی اللہ عنہ کی روایت، ص 26 پر حجۃ اللہ سے شاہ صاحب کی عبارت ص 27 پر مسلم سے جریج والی روایت ص 28 پر بخاری مسلم سے عبد الرحمان بن ابی بکر کی روایت اوراسی صفحہ پر بخاری سے انس رضی اللہ عنہ سے لاٹھی روشن ہونے کی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کے ساتھ ؐ یا صلعم لکھاگیاہے۔
حالانک اصل کتابوں میں پورا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے۔ اوربعض جگہ درود شریف اصل کتاب میں موجود ہونے کے باوجود نقل کرتے وقت قاضی صاحب نے بالکل ہی اڑادیا ہے۔ ؐ یا صلعم کا تکلف بھی روا نہیں رکھا مثلاً اظہار المرام کے ص 6 پر ترمذی سے أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ الخ ص 11پر نسائی سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ص 12 پر ابوداؤد سےابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کےساتھ درود شریف بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔ ؐ یا صلعم بھی نہیں لکھا حالانکہ اصل ترمذی، نسائی اور ابوداؤد میں مکمل ”صلی اللہ علیہ وسلم“ موجود ہے۔ یہ طرز عمل درود کی اہمیت کے علاوہ نقل میں احتیاط کے تقاضے کے بھی خلاف ہے۔ اگر ایک دو مقامات پر نادانستہ درود رہ جاتا یا۔ ؐ اورصلعم پر اکتفاء ہوجاتی تو میں گرفت نہ کرتا کہ ایسا ہوہی جاتا ہے مگر چونکہ اکثر ایساکیا
|