5۔ احادیث طرفین کے ضعف کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں۔
مگر ان پانچ امور کو ثابت کرنا تو درکنار صاحب تحریر نے ان پانچ امور سے کسی ایک امر کو بھی دلائل سے ثابت نہیں فرمایا صرف زبانی کلامی”یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ الخ “والا دعویٰ داغ دیا ہے۔
رابعاً: صاحبِ تحریر کی تصریح کے مطابق اما م مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ چھوڑنے کو اختیار فرمایا ہے اور صاحب تحریر کے انداز فکر کی روشنی میں یہ ہاتھ چھوڑنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مشاہدہ ہی قرار پائے گا کہ انھوں نے تابعین کو ایسے کرتے دیکھا۔ انھوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو، پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ قرآن مجید، حدیث و سنت اور اقوال و قضایا صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تینوں کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ جاننے والے تھے۔ جیسا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمائی ہے۔ دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم اور وفیات الا عیان لا بن خلکان۔
تو صاحب تحریر کو چاہیے کہ وہ بھی ہاتھ چھوڑنے کو ہی اختیار فرما لیں، محض تابعیت کی بنیاد پر کسی کے قول و عمل کو مقدم سمجھنا کوئی انصاف نہیں ورنہ یہ لوگ صحابی کے قول و عمل کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول و عمل پر مقدم سمجھتے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بجائے کسی صحابی کی تقلید کرتے آخر صحابی میں قرب زمانہ اور صحابیت ہے جو تابعی میں ہر گز نہیں۔ یہ بات مقلدین کے انداز فکر پر کہی گئی ہے ورنہ ہمارے نزدیک تو کتاب و سنت کے سامنے کسی کا قول، فتوی، اجتہاد، قیاس، فیصلہ، عالم ہونا، اعلم ہونا، صحابی ہونا، تابعی ہونا حتیٰ کہ آپ سے پہلے کسی پیغمبر کا ہونا ہر گز نہیں چل سکتا۔
سینے پر یا ناف سے اُوپر ہاتھ باندھنے کی احادیث
پہلی حدیث:
(أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ، أخْبَرَهُ قَالَ : قُلْتُ : لَأَنْظُرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ يُصَلِّي ؟ قَالَ : فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ قَامَ فَكَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى
|