Maktaba Wahhabi

689 - 896
ملحوظ اس عنوان کے تحت بندہ نے لکھا تھا”قاری صاحب نے عرف شذی کے حوالہ سے لکھا ہے(وصححه ابن القطان الخ) مگر درایہ بر حاشیہ ہدایہ(ج1ص112) میں لکھا ہے: (وقال ابن القطان : هو عندي ضحيح إلا قوله، ثم لا يعود، فقد قالوا : إن وكيعا كان يقولها من قبل نفسه اھ) جس سے صاف ظاہر ہے کہ ابن القطان رحمۃ اللہ علیہ جملہ ثُمَّ لَا يَعُودُ کو صحیح نہیں سمجھتے اس لیے صاحب عرف شذی کا بلا استثناء(صححه ابن القطان) لکھنا درست نہیں۔ چنانچہ معارف السنن میں نیل الفرقدین سے التقاطاً اور اختصاراً نقل کرتے ہوئے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: (فابن القطان في كتاب الوهم والايهام صحح الحديث باللفظ الاول واعل بلفظ " ثُمَّ لَا يَعُودُ "الخ) (ج 2ص 83 ع) (میرا رقعہ نمبر1ص5، 4) اس کو پڑھ کر قاری صاحب لکھتے ہیں”امام وکیع جب ثقہ ہیں تو ثقہ کی زیادت قابل اعتبار ہے نیز انھوں نے اس روایت کو صحیح سمجھ کر عمل کر کے چار چاند لگا دیے ہیں نیز امام وکیع اس زیادت کے نقل کرنے میں متفرد نہیں بلکہ حضرت ابن المبارک (ثُمَّ لَا يَعُودُ) نقل کرتے ہیں۔ “(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص13) 1۔ اولاً:بندہ کی مندرجہ بالا عبارت کا حاصل یہ ہے کہ صاحب عرف شذی کا بلا استثناء(صححه ابن القطان)لکھنا درست نہیں کیونکہ صاحب عرف شذی کو بذات خود اعتراف ہے کہ جملہ (ثُمَّ لَا يَعُودُ)کو ابن القطان صحیح نہیں سمجھتے(معارف السنن، نیل الفرقدین) تو اب قاری صاحب کا فرض تھا کہ بلا استثناء(صححه ابن القطان)کا درست ہونا ثابت فرماتے مگر ان کی مندرجہ بالا عبارت گواہ ہے کہ وہ اس سلسلہ میں ایک حرف بھی نہیں لکھ سکے۔ حتیٰ کہ انھوں نے بلا استثناء
Flag Counter