يَرْفَعْ يَدَيْهِ[1] إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ) قاری صاحب نے اپنے پانچویں رُقعہ ص 5 پر ان الفاظ کا حوالہ دیا ہے”ترمذی وغیرہ“ اور لکھا ہے” جس کی سند میں حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نہیں ہے اور اس حدیث کے الفاظ بھی جرح سےنہیں ملتے“(ص 5) اور ان ہی الفاظ کو قاری صاحب نے اپنے رُقعہ میں یوں نقل کیا ہے:
(قَالَ أَلاَ أُصَلِّي لَکُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، وَلَمْ يَرْفَعْ بيَدَيْهِ1 إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ)
اورحوالہ دیا ہے”ترمذی ج1ص64اور طحاوی ج1ص110اور مسند احمد ج1ص4420اور ابو داؤد ج1ص109“نیز وہ لکھتے ہیں”اور مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں۔
فرفَعَ بيَدَيْهِ1 فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ (قاری صاحب کا رقعہ نمبر1ص1)
قاری صاحب کے ان الفاظ کو اپنے دونوں رقعوں میں نقل کرنے کے درمیان جو فرق و تفاوت ہے وہ آپ کے سامنے ہے نیز قاری صاحب کے اپنے پہلے رقعہ میں ترمذی، طحاوی، مسنداحمد اور ابو دؤد کا حوالہ دے کر مسند احمد کے الفاظ کا باقی تین کتابوں کے الفاظ سے فرق واضح کرنا اس بات کی طرف ایک قسم کا اشارہ ہے کہ ترمذی، طحاوی، اور ابو داؤدکے الفاظ یکساں ہیں مگر ان کے اس پانچویں رقعہ سے واضح طور پر پتہ چل رہا ہے کہ ترمذی اور طحاوی کے الفاظ میں بھی فرق و تفاوت ہے۔
2۔ دوسرے لفظ:
(اَلَا اُخْبِرُ بِكُمْ بِصَلٰوةِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
ان الفاظ کا حوالہ دیے بغیر قاری صاحب لکھتے ہیں”اور یہ حدیث حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے طریق مروی ہےاس کے الفاظ بھی جرح سے نہیں ملتے۔ “(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص5)
پھر قاری صاحب نے یہ الفاظ پورے بھی نقل نہیں فرمائے شاید اس میں بھی ان کا کوئی
|