نیز آپ صاحب آثار السنن کی مذکورہ بالا عبارت بغور پڑھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا آیا اس روایت کی توثیق محتاج بیان ہے یا نہیں یا وہ سرے سے ثابت ہی نہیں پھر جب صاحب رسالہ حضرت شتیر بن شکل کا اثر ذکر فرمائیں گے تو اس روایت پر مزید کلام ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ کیونکہ یہ روایت اصل میں شتیر بن شکل والا اثر ہی تو ہے جو غلطی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔
تو آپ نے دیکھا کہ سبل السلام کی اس مقام سے متعلقہ عبارت میں تین اغلاط ہیں اور حضرت المؤلف نے ان تینوں اغلاط کو اپنے موقف کی تائید میں پیش فرمایا ہے ادھر انہوں نے اپنے رسالہ میں سنن کبریٰ للبیہقی کے حوالے بقید صفحات دئیے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سن کبری غالباً ان کے مطالعہ میں ہے پھر چونکہ وہ تحقیق کے درپے ہیں اس لیے انہوں نے سبل السلام میں دی گئی سنن کبریٰ کی روایات کو اصل کتاب سے بھی ضرور ہوگا تو اگر انہیں سبل السلام کی مذکورہ عبارت کی ان تین اغلاط کا دوران مطالعہ علم ہو گیا تھا تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ سبل السلام کی یہ عبارات اپنے رسالہ میں درج نہ فرماتے یا پھر ان کی اغلاط واضح فرماتے امید ہے کہ اگر ان کا اس رسالہ کو دوبارہ طبع کرانے کا پروگرام ہوا تو وہ ان اور ان جیسے دیگر محل نظر مقامات کی اصلاح فرمادیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ اگر ہو سکے تو اس قسم کے اہم مقامات کی فورا اصلاح کردی جائے فتامل۔
اتنی بات تو واضح ہو چکی ہے کہ سبل السلام کی اس مقام سے متعلقہ عبارت میں تین اغلاط ہیں رہی یہ بات کہ یہ تین اغلاط صاحب سبل السلام سے خطاءً و سہواً سر زد ہوئیں یا بعض نساخ نے اپنے کسی مفاد کی خاطر عمداً سبل السلام کی اس عبارت میں رد بدل کیا تو اس کی ضرور تحقیق کی جائے گی ان شاء اللہ تعالیٰ مگر کسی دوسری فرصت میں
9۔ صاحب سبل السلام کی تحقیق در مسئلہ تراویح:
اب چونکہ بات سبل السلام کی چل نکلی ہے اور صاحب رسالہ نے اس کتاب کے حوالے بھی دیئے ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب ہذا میں زیر بحث
|