عبداللہ بن قیس سے انہوں نے شتیر بن شکل سے کہ وہ رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھاتے تھے۔ ابن ابی شیبہ کی عبارت ختم ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ عبداللہ بن قیس کے متعلق علم نہیں کہ وہ کون ہے ابو اسحاق اس روایت میں اکیلا ہے انتہی میں کہتاہوں اور بیہقی نے اپنی سنن میں فرمایا اور ہمیں شتیر بن شکل کے متعلق روایت کی گئی ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں س تھے کہ وہ انہیں ماہ رمضان میں بیس رکعت کے ساتھ امامت کراتے اور تین وتر پڑھتے۔ انتہی۔ میں کہتا ہوں کہ بیہقی نے اس کی سند ذکر نہیں کی شاید یہ بھی عبداللہ بن قیس مذکور کے طریق سے ہی ہے واللہ اعلم۔ اھ۔
صاحب آثار السنن کی یہ عبارت صاف صاف بتارہی ہے کہ(أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّهُمْ) میں حضرت شتیر بن شکل کی امامت کا تذکرہ ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا لہٰذا (أَنَّهُ) کی ضمیر کا مرجع حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنانا غلط ہے۔
پھر نمبر چار ہی میں مذکور امام بیہقی کے الفاظ(وَفِي ذَلِكَ قُوَّةٌ) سبل السلام میں (وفيه قوة) سے بدل دئیے گئے ہیں جس سے معنی بھی بدل گیا ہے کیونکہ(وَفِي ذَلِكَ قُوَّةٌ) سے تو وہ حضرت سوید بن غفلہ کے اثر پر حکم لگانا مقصود ہے جیسا کہ اسم اشارہ ذالک سے ظاہر ہے اور(وفيه قوة) سے شتیر بن شکل کے اثر( جس کی امام بیہقی نے سند بھی ذکر نہیں فرمائی) یا سبل السلام کے غلط بیان کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر پر حکم لگے گا پھر امام بیہقی کی عبارت(وَفِي ذَلِكَ قُوَّةٌ) اگر شتیر بن شکل کے اثر سے متعلق ہوتی تو صاحب آثار السنن سنن کبریٰ سے شتیر بن شکل کا اثر نقل کرنے کے بعد اس عبارت کو ضرور نقل فرماتے تو صاحب رسالہ کی تقریر”اس اثر کے متعلق امام بیہقی نے خود ہی فیصلہ فرمادیا کہ یہ اثر قوی ہے اب ان کے فیصلہ کے بعد اس روایت کی توثیق محتاج بیان نہیں“۔ سبل السلام کے غلط بیان والفاظ پر ہی مبنی ہے۔ (فَهُوَ مِنْ بَابِ بِنَاءِ الْفَاسِدِ عَلَي الْفَاسِدِ) (پس ”یہ فاسد کی بنیاد فاسد پر“ کے قبیل سے ہے)
|