Maktaba Wahhabi

312 - 896
کے زمانہ میں بیس رکعت قیام کرتے تھے مگر اس روایت سے بیس رکعت کو سنت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرارنہیں دیا جا سکتا۔ خصوصاً جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود بعض لوگوں کے اس عمل کے خلاف گیارہ رکعت پڑھنے کا حکم دیا تو سنت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گیارہ رکعت ہی ہوگی بیس ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح حضرت عثمان یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کوئی صحیح روایت بیس رکعت کی موجود نہیں۔ تراویح میں عدد مسنون بیس رکعت ثابت کرنے کے جدید طریقے یہ طریقہ ان احناف کا تھا جن کا تذکرہ اوپر گزرا۔ موجودہ دور کے علمائے احناف نے اسے سنت خلفائے راشدین قراردینے کو کافی نہیں سمجھا بلکہ اپنے متقدمین علماء کے خلاف کئی ایسے طریقے اختیار کئے ہیں جو امام احمد بن حنبل کے ارشاد کے مطابق جرأت(سینہ زوری)کے علاوہ کچھ نہیں۔ 1۔ بیس رکعت والی روایت کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش: ان کوششوں میں سے پہلی کوشش بیس رکعت والی بالا تفاق ضعیف روایت کو صحیح بنانے کی کوشش ہے چنانچہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے سابق شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے مشکوۃ کی شرح(التعليق الصحيح) میں لکھا ہے: (اعلم ان الحديث الذي رواه ابن عباس في عشرين ركعة الذي ضعفه ائمة الحديث هو صحيح عند هذا العبد الضعيف عفا اللّٰه عنه) (ص105۔ جلد ثانی طبع دمشق) ”جان لو کہ ابن عباس کی روایت کردہ بیس رکعت والی جسے تمام آئمہ حدیث نے ضعیف قراردیا ہے وہ اس بندہ ضعیف کے نزدیک صحیح ہے۔ “ پھر اپنے خیال کے مطابق اس کے دلائل ذکر کرتے ہوئے آخر میں خلاصہ ان لفظوں میں ذکر کیا ہے:
Flag Counter