(فاذا كان الحديث يصحح بتلقي العلماء الصالحين فكيف لا يصحح بتلقي الخلفاء الراشدين وسائر الصحابة والتابعين وجمهور الائمة والمجتهدين) (حوالہ مذکورہ)
یعنی”جب حدیث علماء صالحین کے عملاً قبول کر لینے کی وجہ سے صحیح ہو سکتی ہے تو خلفاء راشدین، تمام صحابہ و تابعین اور جمہور آئمہ اور مجتہدین کے عملاً قبول کر لینے کی وجہ سے کیوں صحیح نہیں ہو سکتی۔ ؟“
چاہیے تو یہ تھا کہ حدیث پر آئمہ حدیث کا جو اصل اعتراض ہے کہ اس کا راوی ابو شیبہ کذاب ہے اسے دور کر کے حدیث صحیح ثابت کرتے مگر رجالی رجسٹروں کی روسے تصحیح و تضعیف جب شیخ کےنزدیک پٹھا ٹٹونے والی بات تھی تو تلمیذاس چکر میں کیوں پڑتا۔ اس نے پہلےخلفائے راشدین، تمام صحابہ و تابعین، جمہورآئمہ و مجتہدین کے ذمہ گھڑ کرایک بات لگائی پھر اس حوالہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان کو صحیح قرار دے کر اپنے تمام پیشتر وآئمہ حدیث کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ تقلید کا دعویٰ کرنے اور اس پر فخر کرنے والے حضرات کس دیدہ دلیری سے اتنے بڑے مجتہدبن جاتے ہیں کہ اپنے سے پہلے تمام آئمہ حدیث کی متفق علیہ بات کو بھی ٹھکرا دیتے ہیں حالانکہ جس طرح بیس رکعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اسی طرح خلفائے راشدین سے بھی ثابت نہیں اور اسے تمام صحابہ وتابعین و جمہور آئمہ و مجتہدین کا مذہب ہونے کا دعویٰ تو صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو خود بھی فریب نفس میں مبتلا ہواور دوسروں کو بھی اندھا دیکھنے کا خواہش مند ہو۔
آپ عینی کی عمدۃ القاری اور ترمذی کی الجامع اٹھا کر دیکھیں صحابہ و تابعین و جمہور آئمہ و مجتہدین میں گیارہ مسنون رکعتوں پر اکتفاء کرنے والے بھی موجود ہیں اور اپنی سہولت کے لیے قیام میں تخفیف کر کے رکعتوں کی تعداد بیس، چھتیس اور چالیس تک پہنچانے والے بھی۔ ہمارے کئی بھائی تو اپنی تصنیفات اور تقریروں میں امام ابو حنیفہ
|