لفظ لگائیے جو میں نے لکھے ہی نہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
”حضرت مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ ابن مسعود کاخطاب أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْمیں صحابہ سے نہیں تابعین سے فرمایا“۔ (اظہار المرام ص 14۔ 13)
پھر میری اس بات کا جواب دیاہے جو میں نے لکھی ہی نہیں۔ قاضی صاحب کسی کے ذمے وہ لفظ لگانا جو اس نے لکھے ہی نہیں، دیانت کی کون سی قسم ہے؟ فرمائیے یہ الفاظ جو آپ نے مجھ سے منسوب کیے ہیں میرے رسالہ”ایک دین اور چار مذہب“ میں کس صفحہ پر لکھے ہوئے ہیں؟
اس کے بعد میں نے تحفۃ الاحوذی میں سے تلخیص الحبير کے حوالے سے، حافظ ابن قیم کی تہذیب السنن سے اور مرعاۃ المفاتیح سے بارہ ائمہ نقل کیے تھے جنھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔ قاضی صاحب نے ان میں سے بعض ائمہ کے ضعیف کہنے کی تاویل یاتردید کی کوشش کی ہے۔
عبداللہ بن مبارک:
چونکہ عبداللہ بن مبارک امام ابوحنیفہ کے شاگرد ہیں، اس لیے ان کا اس روایت کو غیر ثابت قراردینا ایک خاص مقام رکھتا ہے اس لیے قاضی صاحب نے یہ بات بنائی ہے کہ” درحقیقت ترک رفع یدین کے سلسلہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دوحدیثیں منقول ہیں۔ ایک کے الفاظیہ ہیں اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (کذا) لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ۔ تعلیقات آثارالسنن ص 104اوردوسری روایت کے الفاظ ہیں: (أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(کذا) فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ) عبداللہ بن مبارک جو فرماتے ہیں: وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ۔ یہ پہلی روایت کے بارے میں ہے نہ کہ دوسری روایت کے متعلق الخ“۔ (اظہار المرام ص10)
قاضی صاحب کی یہ بات درست نہیں اس لیے کہ عبداللہ بن مبارک نے
|