Maktaba Wahhabi

844 - 896
کی بھول قراردیے جاتے ہیں۔ اس تعجب کی وجہ یہ نہیں کہ یہ بات فی الواقع قابل تعجب ہے بلکہ یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ قاضی صاحب یہ نہیں سمجھے کہ یہاں مقابلہ ہے سفیان کے حافظے اور عبداللہ بن ادریس کی کتاب کا اور وہاں مقابلہ ہے شعبہ اور سفیان دونوں کے حافظے کا جس میں شعبہ کو خود اقرارہے کہ سفیان ان سے احفظ ہیں: (فيا للعقول القاصرة والقرايح الفاترة عن ادراك الفرق بين مقابلة الكتاب والحفظ وبين مقابلة الحفظ والحفظ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں عاصم بن کلیب کا تفرد: حضرت ابن مسعود سے منسوب روایت کے ضعف کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس روایت کا مدارعاصم بن کلیب پر ہے جو اگرچہ ثقہ راوی ہیں مگر اتنے مضبوط حافظے والے نہیں کہ وہ اکیلے کوئی روایت بیان کریں تو حجت ہوں چنانچہ بخاری کے استاذ علی بن مدینی فرماتے ہیں:(لا يُحتج به إذا انفرد)(التہذیب ص56 ج5) منقول از جلاء العینین از سید بدیع الدین اور اس روایت میں وہ اکیلے ہیں اس لیے یہ روایت صحیح نہیں یہی بات ابن عبدالبر نے التمہید میں تحریر فرمائی ہے۔ ہاں ان کا کوئی اور ثقہ متابع یا ان کی روایت کا کوئی صحیح شاہد مل جائے تو پھر وہ قبول ہوگی۔ قاضی صاحب فرماتے ہیں: ”اس کا جواب یہ ہے کہ عاصم بن کلیب صحیح مسلم کے رواۃ میں سے ہیں اور ثقہ ہیں لہٰذا ان کا تفرد مضر نہیں“۔ قاضی صاحب نے غور نہیں کیا، عاصم بن کلیب پر یہ اعتراض نہیں کہ وہ ثقہ نہیں یامسلم کےراوی نہیں اعتراض یہ ہے کہ وہ اس پائے کے حافظ نہیں کہ اکیلے کی روایت حجت ہو۔ رہامسلم کا راوی ہونا تو وہ درست ہے مگر مسلم میں ان کی کوئی روایت ایسی نہیں جس میں وہ اکیلے ہیں اور ان کی روایت کا کوئی متابع یا شاہد نہ ہو اور پھر بھی مسلم نے ان کی روایت کو حجت مانا ہو۔
Flag Counter