تو بندہ نے جس دلیل کی بنا پر آپ کو رفع الیدین کی منسوخیت کا مدعی لکھا وہ دلیل میرے پہلے ہی رقعہ میں درج ہے جس کو اوپر نقل کیا جاچکا ہے ایک دفعہ پھر سن لیجئے“اتنی بات ذہن میں رکھنے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ”رفع الیدین نہیں کرنا چاہیے“کی مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے جناب قاری صاحب نے کون سی صورت اختیار کی ہوئی ہے تو اس سلسلہ میں ان کا اپنا ہی بعد والا جملہ”اور دلیل منسوخیت پر بھی“ صاف صاف بتلارہا ہے کہ انہوں نے دوسری صورت ”رفع الیدین کے مشروع ہونے کے بعد منسوخ ہونے“ کو اختیار فرمایا ہے۔ (میرا رقعہ نمبر 1ص 1، 2)
تو قاری صاحب اپنے اس پانچویں رُقعہ میں بھی میری طرف سے ان کے مدعی نسخ ہونے پر پیش کی ہوئی دلیل کی تردید نہیں کرسکے اور آئندہ ابدالآباد تک بھی وہ اس کی تردید نہ کرسکیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ، اس لیے ان کے مندرجہ بالاتینوں کے تین اقوال نری غلط بیانیاں اور سراسر واقع کے خلاف ہیں، دوسروں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کرنے والو خود بھی تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اورکچھ تو انصاف لگتی کہو۔
پھر لطف یہ کہ بندہ کے اس ٹھوس اور مضبوط موقف وبیان کو قاری صاحب نے اپنے اس پانچویں رقعہ میں بھی تسلیم فرمالیا ہے چنانچہ وہ خود ہی لکھتے ہیں”تو خیر میرا دعویٰ ہے منسوخیت رفع الیدین کا“(قاری صاحب کا رُقعہ نمبر 5 ص3) بات تو صرف اتنی تھی جس کو آخر کارآپ نے بھی تسلیم فرمالیا ہے تو اب آپ خود ہی غور فرمائیں آیا آپ کے اسی بات کے انکار میں لکھے ہوئے پہلے تین قول اللہ تعالیٰ سے ڈرنے پر مبنی ہیں؟اگر ہیں تو پھر آپ کا یہ قول ”تو خیر میرا دعویٰ ہے منسوخیت رفع الیدین کا“ نیز آپ کااپنے پہلے رُقعہ میں لکھا ہوا قول”اور دلیل منسوخیت پر بھی“ دونوں ہی اللہ تعالیٰ کےڈر پر مبنی نہیں۔
قاری صاحب کے سوالات اور میری طرف سے ان کے جوابات والا معاملہ:
قاری صاحب نے اپنے اس رقعہ میں بھی اپنے سوالات کو دُہرا کربندہ کی
|