نصیحت کی ہے ؎
من كان هذا القدر مبلغ علمه
فليستتر بالصمت والكتمان
احادیث میں تعارض:
قاضی صاحب نے اپنی پہلی تحریر میں احادیث کو ناقابل عمل ٹھہرانے کے لیے لکھا تھا:”آخر میں آپ سے سوال ہے کہ آپ سب احادیث پر عمل کرتے ہیں یا بعض پر؟سب پر آپ عمل کر ہی نہیں سکتے کیونکہ بعض احادیث آپس میں متعارض ہیں الخ۔ “
میں نے اس پر لکھا تھا:
”یہ سوال ہم نے اس سے پہلے کسی مسلمان سے نہیں سنا۔ ہمیشہ منکرین حدیث یا منکرین اسلام سے سنتے آئے ہیں کیونکہ مسلمان کے عقیدہ کی رو سے احادیث میں تعارض ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافًا كَثِيرًا)
اللہ کے کلام میں تعارض و اختلاف نہیں ہو سکتا اور یہی اس کی حقانیت کی دلیل ہے، تعارض کا ہونا باطل ہونے کی دلیل ہے۔ حدیث بھی چونکہ وحی ہے اس میں تعارض ہو تو نعوذ باللہ وحی الٰہی میں تعارض لازم آتا ہے آپ نے غور ہی نہیں کیا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں ائمہ محدثین کی کاوشوں کا ادنیٰ ساخوشہ چین ہونے کی حیثیت سے آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ وہ احادیث پیش کریں جن میں آپ کو تعارض نظر آتا ہے ان شاء اللہ آپ کو سمجھادوں گا کہ تعارض نہیں فہم کا قصور ہے۔ “(ایک دین چار مذہب ص51)
اللہ کا شکر ہے کہ قاضی صاحب جو پہلے کہہ رہے تھے کہ”سب احادیث پر عمل آپ کر ہی نہیں سکتے کیونکہ بعض احادیث متعارض ہیں“میری گزارشات ملاحظہ
|