قاضی حمید اللہ صاحب کی تحریر نمبر1
اختلاف کے چند قسم ہیں:[1]
ایک اختلاف اُصول دین میں ہے جیسا کہ ایک آدمی قبر کو سجدہ جائز مانتا ہے۔ ان کے نام منت مانتے ہیں، چادر چڑھاتے ہیں بزرگوں اور نبیوں کو عالم الغیب مانتے ہیں۔ اپنی حاجتوں میں غیروں کو پکارتے ہیں اور ان سے نفع کی اُمید رکھتے ہیں اور ان کے ضرر سے ڈرتے ہیں جیسے کہ ہمارے ملک خصوصاً پنجاب کا بڑا حصہ ان شرکیہ عقائد میں مبتلا ہے۔ اور ایک شخص ہے کہ وہ ان تمام عقائد کو شرک اور کفر سمجھتے ہیں جیسا کہ اہل حق کا یہی مسلک ہے۔ مذکورہ بالا اختلاف اسلام اور کفر کا اختلاف ہے۔ اسی کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا)”یعنی کچھ مومن اور کچھ کافر نہ بنو بلکہ سب مسلمان بنو“اسی طرح (قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا) اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتیں ہیں ان آیات سے یہ اختلاف یعنی کفر اسلام کا اختلاف مراد ہے۔
دوم اختلاف فروع دین میں ہے۔ جیسا کہ رفع الدین کرو یا نہ کرو آمین زور سے کہو یا نہ کہو، قرآت خلف الامام کرو یا نہ کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات خدا پاک کا دیدار کیا ہے یا نہیں کیاہے، مردے سنتے ہیں یا نہیں سنتے، اس قسم کا اختلاف اسلام اور کفر کا اختلاف نہیں، بلکہ دونوں گروہ مسلمان ہیں۔ اس سے آیت وَلَا تَفَرَّقُوا) کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ یہ اختلافات حضرات صحابہ میں بھی موجود تھے۔ جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات خدا کو نہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا تھا۔ یا حضرات صحابہ کا ایک گروہ مانتے تھے کہ مردے سنتے ہیں اور ایک گروہ نہیں مانتا تھا۔ اب ہم یہ جرات نہیں
|