فنجویہ دینوری کی ثقاہت کی العبر اور دیگر کتب کے مطالعہ سے تحقیق کی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ“ چنانچہ وہ تحقیق ملاحظہ فرمالیں۔
علامہ ذھبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب ”سیر اعلام النبلاء“ میں لکھتے ہیں:
(قال شيرويه في تاريخه كان ثقة صدوقا كثير الرواية للمناكير حسن الخط كثير التصانيف ...الخ) (ج 7 ص 383)
”علامہ شیرویہ اپنی تاریخ میں کہتے ہیں” ابن فنجویہ دینوری ثقہ، صدوق، منکر مصنف تھے۔ “الخ
تو ابن فنجویہ دینوری کے منکر روایات کو کثرت سے بیان کرنے والے اس وصف کو ملحوظ رکھیں، ان کی بیان کردہ بیس رکعات والی موقوف روایت کی تحقیق کو اسی کتاب میں”حضرت سائب بن یزید کا اثر“ کے عنوان کے تحت ملاحظہ فرمائیں اور صاحب رسالہ کی اضطراب والی بحث اور میری طرف سے اس کے جواب کو بھی اسی کتاب میں پڑھیں تو آپ ابن فنجویہ دینوری کی اس موقوف روایت کی تحقیق کے سلسلہ میں ضرور بالضرور کسی ٹھوس نتیجہ تک پہنچ جائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔
2۔ دوسری چیز:
مؤلف رسالہ صفحہ نمبر 6 پر لکھتے ہیں:”یزید بن خصیفہ کے دوسرے شاگرد امام مالک کی روایت یہ ہے:
(حَدَّثَنيْ يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللّٰه عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ)
اس کے جواب میں انہیں میری طرف سے لکھا گیا”امام بیہقی کی کتاب معرفۃ بندہ کے پاس نہیں۔ صاحب رسالہ کی خدمت میں درخواست ہے کہ وہ اس اثر کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نیچے کی سند سے بندہ کومطلع فرمائیں“ میری اس بات کے جواب میں وہ لکھتے ہیں”نیچے کی سند پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیے:
|