بات یہ ہے کہ قاضی صاحب اصل کتابیں دیکھتے ہی نہیں عموماً آثار السنن اور اس کی تعلیق سے نقل کرتے ہیں اور اس کو بھی اچھی طرح نہیں سمجھتے ورنہ یہ کبھی نہ کہتےکہ جس روایت میں جهرباالتامين(کذا) آیا ہے تو اس کاراوی علاؤ بن حسن(کذا) ہے جو ضعیف ہے۔ کیونکہ(رَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ) کی ہرروایت کا راوی علاؤ بن حسن نہیں خود صاحب آثار السنن نے(رَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ) کے الفاظ کی دوروایتیں نقل کی ہیں ایک حضرت وائل کی اور ایک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی۔ اگرغور سے آثار السنن کو ہی پڑھ لیا جاتا تو یہ غلطی نہ ہوتی۔ فَيَاقِلَّةَ التَّدَبُّرِ وَالتَّفَكُّرِ۔ اور یرتج کے الفاظ پر مسئلہ کے اثبات کا مدار نہیں کہ اس کی تضعیف سے ثابت شدہ الفاظ بھی غیرثابت ہوجائیں گے۔
ابن قیم کا حوالہ:
قاضی صاحب نےلکھاتھا:”حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعادمیں بھی تصریح فرمائی ہے کہ آمین پوشیدہ ہے البتہ تعلیم کے لیے جہرجائز ہے۔ “میں نے اس پرعرض کیا تھا: ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ سے جو بات آپ نے نقل کی ہے اُسے دکھانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ فرمائیے کون سے باب یاصفحے میں انہوں نے یہ فرمایا ہے۔ الخ۔ “دیکھئے۔ (ایک دین اور چارمذہب ص46)
اس مقام پر میں نے صرف حوالہ طلب کیا تھا جو سائل ہونے کی حیثیت سے میرا حق تھا قاضی صاحب قلم اس جگہ بے قابو ہوگیا ہے لکھتے ہیں:
”احقر نے آمین بالجہر کا جواب دیتے ہوئے حافظ ابن القیم کی کتاب زاد المعاد کا حوالہ دے کر لکھاتھا کہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ یہ جہر تعلیم کے لیے تھا اس پر مولانا نے فٹ انکار کردیا اور فرمایا کہ زاد المعاد کا متعلقہ مقام کھول کر دیکھا اس میں کچھ اورلکھا تھا اصل میں مولانا عبدالسلام کو کتاب شائع کرنے کا بہت شوق تھا اس لیے مطالعے کی زحمت گوارہ کےبغیر انکار پر انکار کرتا
|