(خَفَضَ صَوْتَ)اور چیز ہے (أخفا صَوْتَ)دوسری چیز۔ ایک میں آواز ہوتی ہے دوسری میں نہیں۔ “(ایک دین اور چار مذہب ص45)
چاہیے تو یہ تھا کہ قاضی صاحب ترمذی طیالسی اور مستدرک کے وہ صفحے لکھتے جہاں(وأخفي بِهَا صَوْتَهُ)لکھا ہے مگر انہوں نے پھر اپنے اصل ماخذ تعلیق آثار السنن کی طرف ہی رجوع کیا ہے اور صاف طور پر مانا ہے کہ واقعی ترمذی میں یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ حاکم میں بھی نہیں دونوں (خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ) کے الفاظ ہیں۔ دیکھئے (اظہار المرام ص18)
قاضی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یہ غلطی آثار السنن پر اعتماد کی وجہ سے لگی ہے جس میں اخفاء صوت اور خفض صوت کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھاگیا بہرحال اللہ کے فضل سے میں نے جو نشاندہی کی تھی کہ(وأخفي بِهَا صَوْتَهُ) ترمذی میں موجود نہیں اور حوالہ غلط دیا گیا ہے۔ قاضی صاحب اس کی تردید نہیں کرسکے بلکہ ان کی تحریر سے ثابت ہوگیا کہ ترمذی کے علاوہ مستدرک کا حوالہ بھی غلط تھا۔
اس کے بعد قاضی صاحب نے جو کچھ شعبہ کے الفاظ(خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ) کے متعلق لکھا ہے بےمحل ہے کیونکہ اہل حدیث اس سےاستدلال نہیں کرتے بلکہ وہ(مَدُ بِهَا صَوْتَهُ)اور(رَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ) سے استدلال كرتے ہیں جو دونوں سنداً ثابت ہیں اور ایک دوسرے کی تفسیر ہیں چنانچہ ابوداؤد نے باب التامین وراء الامام میں پہلی حدیث صحیح سند کے ساتھ وائل بن حجر سے نقل فرمائی ہے جس میں (قَالَ آمين وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ) كے الفاظ یعنی آپ نے بلند آواز سے آمین کہی۔ قاضی صاحب کوشاید یہ روایت معلوم نہیں ہوسکی کہ انہوں نے لکھ دیا ہے کہ”جس روایت میں(جهر باالتامين)[1] آیا ہے تو اس کا راوی علاؤ 2ابن حسن ہے جو ضعیف ہے“۔ (اظہار ص19)
|