نیزکندھوں تک ہاتھ اُٹھانے کی احادیث اور کانوں تک ہاتھ اُٹھانے کی صحیح احادیث کو صاحب تحریر نے بالکل ذکر ہی نہیں کیا حالانکہ وہ احادیث مبارکہ ان دو کتابوں میں بھی موجود ہیں جن دوکتابوں سے انہوں نے کانوں تک ہاتھ اٹھانے کی دو ضعیف روایتیں نقل کی ہیں آخر ایسا کیوں؟کہیں اس لیے تو نہیں کہ ان میں رکوع جاتے اور رکوع سےسراُٹھاتے وقت کندھوں یاکانوں تک ہاتھ اُٹھانے کا بھی ذکر ہے جو صاحب تحریر کی طبع نازک کوناگوار ہے ؎
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ہم تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کرنا ان لوگوں کا کام نہیں جو عوام الناس کی خیر خواہی کرنے کے جذبہ سے سرشار اور کل کلاں اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوکر کامیابی وکامرانی کے سزاوار بننے کے خواہشمند ہیں۔
پیش کردہ روایت نمبر 1 کاحال
صاحب تحریر کہتے ہیں” حضرت وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے یہاں تک کہ قریب تھا آپ کے دونوں انگوٹھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کانوں مبارک کی لو تک برابر ہوجاتے“۔ (نسائی ج1ص 141)
یہ روایت سنن نسائی (باب موضع الإبهامين عند الرفع، وباب رفع اليدين مدا، من كتاب الافتتاح) میں مذکور ہے اس کی سند میں عبدالجبار بن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہے جو اس روایت کو اپنے باپ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتا ہے۔ اس عبدالجبار نے اپنے باپ وائل رضی اللہ عنہ سے کوئی حدیث نہیں سنی لہٰذا یہ روایت بوجہ انقطاع ضعیف ہے۔ تقریب التہذیب میں لکھا ہے(ثقة لكنه أرسل عن أبيه) ہے تو ثقہ لیکن اس نے اپنے باپ سے بار سال وانقطاع بیان کیا ہے۔ اسکی زیادہ تفصیل آپ کو تہذیب التہذیب میں ملے گی۔
اسی عبدالجبار بن وائل کی شروع نماز میں کانوں تک ہاتھ اُٹھانے کی ایک
|