تو اس عبارت میں حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ نے اپنے فیصلہ(لم يثبت)كی وجہ کی طرف بھی اشارہ فرمادیا ہے کہ ترک رفع الیدین کی روایات میں قلت ہے اور ان کی سندوں میں جودت اورعمدگی بھی نہیں لہٰذا ان کا فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ غیر مفسر نہ رہا تو قاری صاحب کی یہ دوسری بات”بھی غیر مفسر“ بالکل بے کار اور بے بنیاد ہے۔
مشہورمحدث حضرت ابوحاتم رازی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کی روایت:
بندہ نے اپنے پہلے رقعہ میں بحوالہ تلخیص لکھا تھا(وقال ابن ابي حاتم عن ابيه:هذا حديث خطاء) ابوحاتم کہتے ہیں یہ روایت خطا ہے“( میرا رقعہ نمبر1 ص4) اس کو پڑھ کرقاری صاحب لکھتے ہیں” جس حدیث پرامام ابوحاتم نے جرح کی ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
(وقال ابن أبي حاتم في كتاب العلل ج 1 ص 96 : سألت أبي عن حديث رواه سفيان الثوري عن عاصم بن كليب عن عبدالرحمان بن الاسود عن علقمة عن عبداللّٰه أنَّ النَّبي صلي اللّٰه عليه وسلم قام فكبر فرفع يديه[1] ثم لم يعدفقال أبي هذا خطاء يقال وهم فيه الثوري الخ) (قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5 ص 7)
قاری صاحب نے حافظ ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(هذا حديث خطاء) کو ٹالنے کے لیے وہی بات کہی جو وہ اس سے قبل حضرت عبداللہ بن مبارک کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کو ٹالنے کے سلسلہ میں کہہ چکے ہیں توجس طرح ان کی پہلی کوشش ناکام تھی اسی طرح ان کی یہ کوشش بھی ناکام ہی ہے تو سنیے:
1۔ اولاً، کتاب العلل کی نصب الرایہ میں منقول عبارت میں واضح طور پر موجود
|