کے اپنے ہاں درُست ہونے کا رد ہے اور نہ ہی واقع میں کیونکہ اہل علم جانتے ہیں کہ محدثین احادیث سے متعلق اپنے فیصلہ جات میں بسااوقات دلیل ذکر نہیں کرتے پھر ان کے دلیل ذکر نہ کرنے سے دلیل کے وجود کی نفی نہیں ہوتی نیز حضرت عبداللہ بن مبارک نافی ہیں نہ کہ مدعی اور دلیل مدعی کے ذمہ ہوا کرتی ہے جیسا کہ اس اُصول کا قاری صاحب کو بھی علم ہے لہٰذا قاری صاحب کے قول”ہے بھی غیرمفسر“ میں حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کے مقابلہ میں رتی وزن نہیں۔
2۔ قاری صاحب نے ترمذی، ابن حزم اور دیگر اہل علم سے جو تحسن وتصحیح والے فیصلے نقل کیے ہیں وہ بھی توغیر مفسر ہی ہیں حالانکہ دلیل پیش کرنا قاری صاحب کے نزدیک بھی مثبت ومدعی کی ذمہ داری ہے اور نافی کے لیے تو صرف نفی کردینا ہی کافی ہوا کرتا ہے تو اگر قاری صاحب نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کو محض غیر مفسر ہونے کی بنیاد پررد کرنا ہے تو پھر ازروئے انصاف وہ ترمذی کے تحسین اور ابن حزم کے تصحیح والے فیصلوں کو بھی تو رد کریں کیونکہ یہ فیصلے بھی تو آخر غیر مفسر ہی ہیں۔
3۔ حافظ بیہقی نے سنن کبریٰ میں حضرت عبداللہ بن مبارک کا(لم يثبت)والا فیصلہ نقل کرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن مبارک ہی کے یہ الفاظ بھی نقل فرمائے ہیں:
(وقد ثبت عندي حديث رفع اليدين ذكره عبيداللّٰه ومالك ومعمر وابن أبى حفصة عن الزهري عن سالم عن ابن عمر عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قال: وأراه واسعا. ثم قال عبد الله: كأني أنظر إلى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم] وهو يرفع يديه لكثرة الأحاديث وجودة الأسانيد) (ج 2)
|