Maktaba Wahhabi

601 - 896
ہے۔ دوسری یہ بات ہے کہ تم نے ان حوالوں کی دلیلیں نہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے لہٰذا دعویٰ بغیر دلیل کے خارج لیکن مولانا صاحب یادرہے امام دارقطنی صحیح کہتے ہیں۔ باقی رہا تمھارا یہ کہنا کہ (وقال ابن حبان في الصلاة: هذا أحسن خبر روى لأهل الكوفة في نفي رفع اليدين في الصلاة عند الركوع وعند الرفع منه، وهو في الحقيقة أضعف شئ يقول عليه لإزالۃ عللا تبطله) (تحفۃ الاحوذی ج1 ص220) مولانا صاحب اس کی بھی ذرا سی تفصیل سن لیجئے۔ مولانا صاحب ابن حبان کی جرح کئی وجوہ سے مردود ہے۔ اولاً اس لیے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کئی سندوں سے یہ روایت مروی ہے پتہ نہیں ان کا کس سند پر اعتراض ہے اور پھر یہ جرح بھی غیر مفر ہے۔ ثانیاً، علامہ احمد محمد شاکر غیر مقلد شرح ترمذی ج2ص41اور علامہ شعیب الارنا ووط غیرمقلد اور علامہ محمد زہیر الشادیش دونوں تعلیقات شرح السنۃ ج2ص24 میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے(وما قالوه في تعليله ليس بعلة) یعنی بعض نے جو علتیں (خرابیاں) اس میں نکالی ہے وہ کچھ نہیں۔ کیونکہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ مولانا صاحب اگر کوئی حوالہ پیش کرنا ہو تو پہلے اپنے بڑوں کی طرف بھی نظر کر لیا کرو۔ میرا یہ مشورہ ہے گر قبول افتدز ہے عزوشرف۔ اور علامہ شبیر احمد عثمانی فتح الملھم ج2ص13میں لکھتے ہیں کہ ہمیں تو ان علتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہو سکا۔ شاید یہ علت ہو کہ یہ علت ان کے مذہب کے خلاف ہے۔ آگے مولانا صاحب لکھتے ہیں بطور سرخی دے اس طرح۔ ملحوظ میں نے عرف شذی کے حوالہ سے لکھا تھا کہ (وصحه ابن القطان الخ) لیکن مولانا صاحب نے درایہ بر حاشیہ ہدایہ(ج1ص112)کا حوالہ دے کر لکھا ہے: (وقال ابن القطان : هو عندي صحيح إلا قوله، ثم لا يعود، فقد قالوا : إن وكيعا كان يقولها
Flag Counter